بسم الله الرحمن الرحيم Surah Fatiha 1 in Urdu

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ

ٱلرَّحِيمِ

اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے

Previous.        سورہ فاتحہ۔         Next

Surah Fatiha Ayat 1 in Urdu Translation and Tafseer by Dr israr Ahmed Bayan ul Quran

بسم الله الرحمن الرحيمIn Urdu
بسم الله الرحمن الرحيم
In Urdu translation and Tafseer

سورة الفاتحہ اگرچہ قرآن حکیم کی مختصر سورتوں میں سے ہے ‘ اس کی کل سات آیات ہیں ‘ لیکن یہ قرآن حکیم کی عظیم ترین سورت ہے۔ اس سورة مبارکہ کو اُمّ القرآن بھی کہا گیا ہے اور اساس القرآن بھی۔ یعنی یہ پورے قرآن کے لیے جڑ ‘ بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ الفاتحہ کس اعتبار سے ہے ؟ فَتَحَ یَفْتَحُ کے معنی ہیں کھولنا۔ چونکہ قرآن حکیم شروع اس سورت سے ہوتا ہے لہٰذا یہ ”سورة الفاتحہ“ The Opening Surah of the Quran ہے۔ اس کا ایک نام ”الکافیہ“ یعنی کفایت کرنے والی ہے ‘ جبکہ ایک نام ”الشافیہ“ یعنی شفا دینے والی ہے۔ دوسری بات یہ نوٹ کیجیے کہ یہ سورة مبارکہ پہلی مکمل سورت ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہے۔ اس سے پہلے متفرق آیات نازل ہوئیں۔ سب سے پہلے سورة العلق کی پانچ آیتیں ‘ پھر سورة نٓ یا سورة القلم کی سات آیتیں ‘ پھر سورة المزمل کی نو آیتیں ‘ پھر سورة المدثر کی سات آیتیں اور پھر سورة الفاتحہ کی سات آیتیں نازل ہوئیں۔ لیکن یہ پہلی مکمل سورت ہے جو نازل ہوئی ہے رسول اللہ ﷺ پر۔ سورة الحجر میں ایک آیت بایں الفاظ آئی ہے : وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ ”ہم نے اے نبی ﷺ آپ ﷺ ‘ کو سات ایسی آیات عطا کی ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور عظمت والا قرآن۔“سورۃ الفاتحہ کی سات آیتیں دوہرا دوہرا کر پڑھی جاتی ہیں ‘نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہیں ‘ اور یہ سورة مبارکہ خود اپنی جگہ پر ایک قرآن عظیم ہے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ھِیَ السَّبْعُ الْمَثَانِیُّ وَالْقُرْآنُ الْعَظِیْمُ الَّذِیْ اُوْتِیْتُہٗ 1”سورة اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہی ”سبع مثانی“ اور ”قرآن عظیم“ ہے جو مجھے عطا ہوئی ہے۔“تعداد کے اعتبار سے اس کی سات آیات متفق علیہ ہیں۔ البتہ اہل علم میں ایک اختلاف ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک ‘ جن میں امام شافعی رض بھی شامل ہیں ‘ آیت بسم اللہ بھی سورة الفاتحہ کا جزء ہے۔ ان کے نزدیک بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سورة الفاتحہ کی پہلی آیت اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ 5 غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ساتویںآیت ہے۔ لیکن دوسری طرف امام ابوحنیفہ رح کی رائے یہ ہے کہ آیت بسم اللہ سورة الفاتحہ کا جزء نہیں ہے ‘ بلکہ آیت بسم اللہ قرآن مجید کی کسی بھی سورة کا جزء نہیں ہے ‘ سوائے ایک مقام کے جہاں وہ متن میں آئی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا کو جو خط لکھا تھا اس کا تذکرہ سورة النمل میں بایں الفاظ آیا ہے : اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ سورتوں کے آغاز میں یہ علامت کے طور پر لکھی گئی ہے کہ یہاں سے نئی سورة شروع ہو رہی ہے۔ ان حضرات کے نزدیک اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سورة الفاتحہ کی پہلی آیت اور اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ پانچویں آیت ہے ‘ جبکہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ 5 چھٹی اور غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ساتویں آیت ہے۔ جن حضرات کے نزدیک آیت بسم اللہ سورة الفاتحہ کا جزء ہے وہ نماز میں جہری قراءت کرتے ہوئے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ بھی بالجہر پڑھتے ہیں ‘ اور جن حضرات کے نزدیک یہ سورة الفاتحہ کا جزء نہیں ہے وہ جہری قراءت کرتے ہوئے بھی بسم اللہ خاموشی سے پڑھتے ہیں اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سے قراءت شروع کرتے ہیں۔ نماز کا جزو لازم اس سورة مبارکہ کا اسلوب کیا ہے ؟ یہ بہت اہم اور سمجھنے کی بات ہے۔ ویسے تو یہ کلام اللہ ہے ‘ لیکن اس کا اسلوب دعائیہ ہے۔ یہ دعا اللہ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے کہ مجھ سے اس طرح مخاطب ہوا کرو ‘ جب میرے حضور میں حاضر ہو تو یہ کہا کرو۔ واقعہ یہ ہے کہ اسی بنا پر قرآن مجید کی اس سورت کو نماز کا جزو لازم قرار دیا گیا ہے ‘ بلکہ سورة الفاتحہ ہی کو حدیث میں”الصَّلاۃ“ کہا گیا ہے ‘ یعنی اصل نماز سورة الفاتحہ ہے۔ باقی اضافی چیزیں ہیں ‘ تسبیحات ہیں ‘ رکوع و سجود ہیں ‘ قرآن مجید کا کچھ حصہ آپ اور بھی پڑھ لیتے ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت رض سے مروی متفق علیہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لاَ صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ 2 یعنی جو شخص نماز میں سورة الفاتحہ نہیں پڑھتا اس کی کوئی نماز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث میں یہ مضمون آیا ہے۔اس اعتبار سے بھی ہمارے ہاں ایک فقہی اختلاف موجود ہے۔ بعض حضرات نے اس حدیث کو اتنا اہم سمجھا ہے کہ آپ باجماعت نماز پڑھ رہے ہیں تب بھی ان کے نزدیک آپ امام کے ساتھ ساتھ ضرور سورة الفاتحہ پڑھیں گے۔ چناچہ امام ہر آیت کے بعد وقفہ دے۔ امام جب کہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ تو اس کے بعد مقتدی بھی کہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ خواہ اپنے دل میں کہے۔ پھر امام کہے : الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ تو مقتدی بھی دل میں کہہ لے : اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ یہ موقف ہے امام شافعی رح کا کہ نماز چاہے جہری ہو چاہے سری ہو ‘ اگر آپ امام کے پیچھے پڑھ رہے ہیں تو امام اپنی سورة الفاتحہ پڑھے گا اور آپ اپنی پڑھیں گے اور لازماً پڑھیں گے۔امام ابوحنیفہ رض کا موقف اس کے بالکل برعکس ہے کہ امام جب سورة الفاتحہ پڑھے گا تو ہم پیچھے بالکل نہیں پڑھیں گے ‘ بلکہ امام کی قراءت ہی مقتدیوں کی قراءت ہے۔ ان کا استدلال آیت قرآنی وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ الاعراف اور حدیث نبوی ﷺ مَنْ کَانَ لَہٗ اِمَامٌ فَقِرَاءَ ۃُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَاءَ ۃٌ 3 سے ہے۔نیز ان کا کہنا ہے کہ نماز باجماعت میں امام کی حیثیت سب کے نمائندے کی ہوتی ہے۔ اگر کوئی وفد کہیں جاتا ہے اور اس وفد کا کوئی سربراہ ہوتا ہے تو وہاں جا کر گفتگو وفد کا سربراہ کرتا ہے ‘ باقی سب لوگ خاموش رہتے ہیں۔اب اس ضمن میں ایک انتہائی معاملہ تو وہ ہوگیا جو امام شافعی رح کا موقف ہے کہ چاہے جہری نماز ہو چاہے سریّ ہو ‘ اس میں امام کے پیچھے مقتدی بھی سورة الفاتحہ پڑھیں گے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ظہر اور عصر سریّ نمازیں ہیں ‘ ان میں امام خاموشی سے قراءت کرتا ہے ‘ بلند آواز سے نہیں پڑھتا ‘ جبکہ فجر ‘ مغرب اور عشاء جہری نمازیں ہیں ‘ جن میں سورة الفاتحہ اور قرآن کا مزید کچھ حصہ پہلی دو رکعتوں میں آواز کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔امام ابوحنیفہ رح کا موقف ہے کہ نماز خواہ جہری ہو خواہ سریّ ہو ‘ نماز باجماعت کی صورت میں مقتدی خاموش رہے گا اور سورة الفاتحہ نہیں پڑھے گا۔ان کے علاوہ ایک درمیانی مسلک بھی ہے اور وہ امام مالک رح اور امام ابن تیمیہ رح وغیرہما کا ہے۔ اس ضمن میں ان کا موقف یہ ہے کہ جہری رکعت میں مقتدی سورة الفاتحہ مت پڑھے ‘ بلکہ امام کی قراءت خاموشی سے سنے ‘ ازروئے نص قرآنی : وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ الاعراف ”اور جب قرآن پڑھا جائے تو تم پوری توجہ سے اسے سنا کرو اور خود خاموش رہا کرو ‘ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ اسی طرح حدیث نبوی ﷺ ہے : اِذَا قَرَأَ [ الْاِمَامُ ] فَاَنْصِتُوْا 4 ”جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو“۔ چناچہ جب امام بالجہر قراءت کر رہا ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ تو آپ سنیے اور خود خاموش رہیے ‘ لیکن جو سرّی نماز ہے اس میں امام اپنے طور پر سورة الفاتحہ پڑھے اور آپ اپنے طور پر خاموشی سے پڑھیں۔ یہ درمیانی موقف ہے ‘ اور میں نے بہرحال اسی کو اختیار کیا ہوا ہے۔فطرت سلیمہ کی پکار سورۃ الفاتحہ کے ضمن میں ‘ مَیں نے عرض کیا کہ یہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین کی ہے۔لیکن اس سے آگے بڑھ کر ذرا قرآن مجید کی حکمت اور فلسفہ پر اگر غور کریں گے تو اس سورت کی ایک اور شان سامنے آئے گی۔ بنیادی طور پر قرآن کا فلسفہ کیا ہے ؟ انسان اس دنیا میں جب آتا ہے تو فطرت لے کر آتا ہے ‘ جسے قرآن حکیم ”فِطْرَت اللّٰہِ“ قرار دیتا ہے ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط الرّوم : 30 یہی حقیقت حدیث نبوی ﷺ میں بایں الفاظ بیان کی گئی ہے : مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ الاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ ‘ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ 5 ”نسل انسانی کا ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ‘ لیکن یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی ‘ نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں“۔ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے فطرت اسلام لے کر آتا ہے۔ تو انسان کی فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور اپنی محبت ودیعت کردی ہے۔ اس لیے کہ جو روح انسانی ہے وہ کہاں سے آئی ہے ؟ یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ”اے نبی ﷺ ! یہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے“۔ ہماری روح رب تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے ‘ لہٰذا اس کے اندر اللہ کی معرفت بھی ہے ‘ اللہ کی محبت بھی ہے۔ تو جب تک ایک انسان کی فطرت میں کوئی کجی نہ آئے ‘وہ بےراہ روی perversion سے محفوظ رہے تو اسے ہم کہتے ہیں فطرت سلیمہ ‘ یعنی سالم اور محفوظ فطرت۔ اس فطرت والا انسان جب بلوغ کو پہنچتا ہے اور اسے عقل سلیم بھی مل جاتی ہے ‘ یعنی صحیح صحیح انداز میں غور کرنے کی صلاحیت مل جاتی ہے تو ان دونوں چیزوں کے امتزاج کے نتیجہ میں ایمانیات کے کچھ بنیادی حقائق انسان پر خود منکشف ہوجاتے ہیں ‘ خواہ اسے کوئی وحی ملے یا نہ ملے۔ یہ ہے فطرت کا معاملہ اور یہ ہے قرآن کی حکمت اور فلسفہ کا اصول۔ اس کی ایک بڑی شاندار مثال قرآن مجید میں حضرت لقمان کی دی گئی ہے ‘جو نہ نبی تھے نہ کسی نبی کے پیروکار اور امتی تھے ‘ لیکن انہیں اللہ نے حکمت عطا فرمائی تھی۔”حکمت“ فطرت سلیمہ ‘ قلب سلیم اور عقل سلیم کے امتزاج سے وجود میں آتی ہے۔ اگر فطرت بھی محفوظ ہے ‘ عقل بھی ٹیڑھ پر نہیں چل رہی ‘ بلکہ صحیح اور سیدھے راستے پر چل رہی ہے تو ان دونوں کے امتزاج سے جو حکمت پیدا ہوتی ہے ‘ انسان کو جو دانائی wisdom میسرّ آتی ہے اس کے نتیجہ میں وہ پہچان لیتا ہے کہ اس کائنات کا ایک پیدا کرنے والا ہے ‘ یہ خود بخود نہیں بنی ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اکیلا ہے ‘تنہا ہے ‘ کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے لَا مِثْلَ لَہٗ وَلَا مِثَالَ لَہٗ وَلَا مَثِیْلَ لَہٗ وَلَا کُفُوَ لَہٗ وَلَا ضِدَّ لَہٗ وَلَا نِدَّ لَہٗ ۔ کوئی اس کا مدّمقابل نہیں ہے اور اس میں تمام صفات کمال بتمام و کمال موجود ہیں۔ وہ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْر ہے ‘ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْم ہے ‘ ہر جگہ موجود ہے ‘ اور اس کی ذات میں کوئی نقص ‘ کوئی عیب ‘ کوئی کوتاہی ‘ کوئی تقصیر ‘ کوئی کمزوری ‘ کوئی ضعف ‘ کوئی احتیاج قطعاً نہیں ہے۔یہ پانچ باتیں فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کے نتیجہ میں انسان کے علم میں آتی ہیں ‘ چاہے اسے ابھی کسی وحی سے فیض حاصل نہ ہوا ہو۔چناچہ آپ دیکھتے ہیں کہ چین کا بڑا فلسفی اور حکیم کنفیوشس ان تمام باتوں کو ماننے والا تھا ‘ حالانکہ وہ نبی تو نہیں تھا ! مزیدبرآں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انسانی زندگی صرف یہ دنیا کی زندگی نہیں ہے ‘ اصل زندگی ایک اور ہے جو موت کے بعد شروع ہوگی اور اس میں انسان کو اس زندگی کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملے گا ‘ نیکیاں کمائی ہیں تو ان کی جزا ملے گی اور بدیاں کمائی ہیں تو ان کی سزا ملے گی۔ یہ وہ حقائق ہیں کہ جہاں تک انسان اپنی عقل سلیم اور فطرت سلیمہ کی رہنمائی سے پہنچ جاتا ہے۔ پھر اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک ہستی جو یکتا ہے ‘ وہی پیدا کرنے والا ہے ‘ پروردگار ہے ‘ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْر ہے ‘ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْم ہے ‘ وہی رازق ہے ‘ وہی خالق ہے ‘ وہی مالک ہے ‘ وہی مشکل کشا ہے ‘ تو اب اسی کی بندگی ہونی چاہیے ‘ اسی کا حکم ماننا چاہیے ‘ اسی سے محبت کرنی چاہیے ‘ اسی کو مطلوب بنانا چاہیے ‘ اسی کو مقصود بنانا چاہیے۔ یہ اس کا منطقی نتیجہ ہے اور یہاں تک انسان عقل سلیم اور فطرت سلیمہ کی رہنمائی سے پہنچ جاتا ہے۔درخواست ہدایت البتہ اب آگے مسئلہ آتا ہے کہ میں کیا کروں کیا نہ کروں ؟ اس میں بھی جہاں تک انفرادی معاملات ہیں ‘ ان کے ضمن میں ایک روشنی اللہ نے انسان کے باطن میں رکھی ہوئی ہے ‘اس کے ضمیر کے اندر ‘ قلب اور روح کے اندر یہ روشنی موجود ہے کہ انسان نیکی اور بدی کو خوب جانتا ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰٹھَا۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰٹھَا۔ الشمس ”قسم ہے نفس انسانی کی اور جو اسے سنوارا درست کیا ‘ اس کی نوک پلک سنواری ‘ پھر اس میں نیکی اور بدی کا علم الہامی طور پر رکھ دیا“۔ ہر انسان جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا برا ہے ‘ سچ بولنا اچھا ہے ‘ وعدہ پورا کرنا اچھا ہے ‘ وعدہ خلافی بری بات ہے ‘ پڑوسی کو ستانا بہت بری بات ہے جبکہ پڑوسی کے ساتھ خوش خلقی کے ساتھ پیش آنا انسانیت کا تقاضا ہے۔ تو انفرادی سطح پر بھی انسان صحیح اور غلط ‘حق اور باطل میں کچھ نہ کچھ فرق کرلیتا ہے۔ لیکن جب اجتماعی زندگی کا معاملہ آتا ہے تو اس کے لیے مجبوری ہے کہ وہ نہیں سمجھ سکتا کہ اعتدال کا راستہ کون سا ہے۔ عائلی زندگی میں عورت کا مقام کیا ہونا چاہیے ‘ عورت کے حقوق کیا ہونے چاہئیں۔ چناچہ ایک انتہا تو یہ ہے کہ دنیا میں عورت کو مرد کی ملکیت بنا لیا گیا۔ جیسے بھیڑ بکری کسی کی ملکیت ہے ‘ ایسے ہی گویا بیوی بھی خاوند کی ملکیت ہے ‘ اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ‘ اس کے کوئی حقوق ہی نہیں ‘ اس کا کوئی legal status ہی نہیں ‘ اس کے کوئی دستوری حقوق ہی نہیں۔ وہ نہ کسی شے کی مالک ہوسکتی ہے ‘نہ کوئی کاروبار کرسکتی ہے۔ اور ایک انتہا یہ ہوتی ہے کہ کوئی قلوپطرہ ہے جو کسی قوم کی سربراہ بن کر بیٹھ جائے اور پھر اس کا بیڑا غرق کر دے ‘ جیسے مصر کا بیڑا قلوپطرہ نے غرق کیا۔ تو یہ دو متضاد انتہائیں ہیں۔آج ہمیں مغرب میں نظر آ رہا ہے کہ مرد و زن بالکل شانہ بشانہ اور برابر ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ فیملی لائف ختم ہو کر رہ گئی۔ اب وہاں صرف one parent family ہے۔ بل کلنٹن نے سال نو پر اپنی قوم کو جو پیغام دیا تھا اس میں کہا تھا کہ عنقریب ہماری امریکی قوم کی عظیم اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہوگی۔اس نے الفاظ استعمال کیے تھے : Born without any wedlock۔ حلال زادہ اور حرام زادہ میں یہی تو فرق ہے کہ اگر ماں باپ کا نکاح ہوا ہے ‘ شادی ہوئی ہے تو ان کے ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ ان کی حلال اور جائز اولاد ہے۔ لیکن اگر ایک مرد اور ایک عورت نے بغیر نکاح کے تعلق قائم کرلیا ہے تو اس طرح بغیر کسی Legal marriage کے ‘ بغیر کسی شادی کے بندھن کے جو اولاد ہوگی وہ حرامی ہے۔ بل کلنٹن کو معلوم تھا کہ ان کے یہاں اب جو بچے پیدا ہو رہے ہیں وہ اکثر و بیشتربغیر کسی شادی کے بندھن کے پیدا ہو رہے ہیں ‘ لہٰذا اس نے کہا کہ عنقریب ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہوگی۔ایک قوم کی کج روی اور perversion کی انتہا یہ ہے کہ انہوں نے بنیادی فارموں میں سے باپ کا نام ہی نکال دیا ہے۔ اس لیے کہ بہت سے بچوں کو پتا ہی نہیں ہے کہ ہمارا باپ کون ہے ‘ وہ تو اپنی ماں سے واقف ہیں ‘ باپ کے بارے میں انہیں کچھ علم نہیں ہے۔ اسی طرح سرمایہ اور محنت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن کیا ہو ‘ یہاں بھی انسان بےبس ہے۔ سرمایہ دار کی اپنی مصلحتیں ہیں اور مزدور کی اپنی مصلحتیں ہیں۔ سرمایہ دار کو اندازہ نہیں ہوسکتا کہ مزدور پر کیا بیت رہی ہے ‘ وہ کن مشقتوں میں ہے۔ بقول علامہ اقبال ؂تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات لہٰذا سرمایہ کے کیا حقوق ہیں اور لیبر کے کیا حقوق ہیں ‘ ان میں توازن کیا ہو ‘ یہ کس طرح معینّ ہوگا ؟اسی طرح کا معاملہ فرد اور معاشرے کا ہے۔ ایک طرف انفرادی حقوق اور انفرادی آزادی ہے اور دوسری طرف معاشرہ ‘ قوم اور ریاست state ہے۔ کس کے حقوق زیادہ ہوں گے ؟ ایک فرد کہتا ہے میں آزاد ہوں ‘ میں مادر زاد برہنہ ہو کر سڑک پر چلوں گا ‘ تم کون ہو مجھے روکنے والے ؟ آیا اسے روکا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر اسے روک دیا جائے تو اس کی آزادی پر قدغن ہوجائے گی۔ اگر اسے کہا جائے کہ تم اس طرح نہیں نکل سکتے تو آزادی تو نہیں رہی ‘ اس کی مادر پدر آزادی تو ختم ہوجائے گی ! لیکن ظاہر بات ہے کہ ایک ریاست اور معاشرہ کے کچھ اصول ہیں ‘ اس کے کچھ اخلاقیات ہیں ‘ کچھ قواعد و قوانین ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ ان کی پابندی کی جائے ‘ اور پابندی کرانے کے لیے وہ چاہتی ہے کہ اس کے پاس اختیارات ہوں ‘ اتھارٹی ہو۔ دوسری طرف عوام یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے حقوق کا سارا معاملہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ اب اس میں اعتدال کا راستہ کون سا ہے ؟ یہ ہے وہ عقدۂ لاینحل dilemma کہ جس میں انسان کے لیے اس کے سوا کوئی اور شکل نہیں ہے کہ گھٹنے ٹیک کر اللہ سے دعا کرے کہ پروردگار ! میں اس مسئلہ کو حل نہیں کرسکتا ‘ میں تجھ سے رہنمائی چاہتا ہوں۔ تو مجھے ہدایت دے ‘ سیدھے راستہ پر چلا ! میں نے تجھے پہچان لیا ‘ میں نے یہ بھی جان لیا کہ مرنے کے بعد جی اٹھنا ہے اور حساب کتاب ہوگا اور مجھے جواب دہی کرنی پڑے گی ‘ اور میں اس نتیجہ پر بھی پہنچ چکا ہوں کہ تیری ہی بندگی کرنی چاہیے ‘ تیری ہی اطاعت کرنی چاہیے ‘ تیرے ہی حکم پر چلنا چاہیے۔۔ لیکن اس سے آگے میں کیا کروں کیا نہ کروں ؟ کیا صحیح ہے کیا غلط ہے ؟ کیا جائز ہے کیا ناجائز ہے ؟ میرا نفس تو مجھے اپنی مرغوب چیزوں پر اکساتا ہے۔ لیکن جس چیز کے لیے میرے نفس نے مجھے اکسایا ہے وہ جائز بھی ہے یا نہیں ؟ صحیح بھی ہے یا نہیں ؟ فوری طور پر تو مجھے اس سے مسرت حاصل ہو رہی ہے ‘ مجھے اس سے ّ لذت حاصل ہو رہی ہے ‘ منفعت پہنچ رہی ہے ‘لیکن میں نہیں جانتا کہ آخر کار ‘ نتیجے کے اعتبار سے یہ چیز معاشرے کے لیے اور خود میرے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتی ہے ؟ اے اللہ ! میں نہیں جانتا ‘ تو مجھے ہدایت دے ‘ مجھے راستہ دکھا ‘ سیدھا راستہ ‘ درمیانی راستہ ‘ ایسا راستہ جو متوازن ہو ‘ جس میں انصاف ہو ‘ جس میں عدل اور قسط ہو ‘ جس میں کسی کے حقوق ساقط نہ ہوں اور کوئی جابر بن کر مسلطّ نہ ہوجائے ‘ جس میں نہ کوئی حزن و ملال اور مایوسی ودرماندگی depression ہو ‘ نہ کوئی معاشی استحاصل ہو ‘ نہ کوئی سماجی امتیاز ہو۔ اے ربّ ! ان تینوں چیزوں سے پاک ایک صراط مستقیم میں اپنے ذہن سے تلاش نہیں کرسکتا ‘ میرے فیصلے جو ہیں غلط ہوجائیں گے۔ تو میں ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا ہوں کہ مجھے اس سیدھے راستے کی ہدایت بخش دے۔یوں سمجھئے کہ پس منظر میں ایک شخص ہے جو اپنی سلامتئ طبع ‘سلامتئ فطرت اور سلامتئ عقل کی رہنمائی میں یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نے اللہ کو پہچان لیا ‘ آخرت کو پہچان لیا ‘ یہ بھی طے کرلیا کہ راستہ ایک ہی ہے اور وہ ہے اللہ کی بندگی کا راستہ ‘ لیکن اس کے بعد اسے احتیاج محسوس ہو رہی ہے کہ مجھے بتایا جائے کہ اب میں دائیں طرف مڑوں یا بائیں طرف مڑوں ؟ یہ مجھے نہیں معلوم۔ قدم قدم پر چورا ہے آ رہے ہیں ‘ سہ را ہے آ رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے ان میں سے ایک ہی راستہ ہوگا جو سیدھا منزل مقصود تک لے کر جائے گا۔ کہیں میں غلط موڑ مڑ گیا تو میرا حال اس شعر کے مصداق ہوجائے گا ؂رستمکہ خار از پاکشم محمل نہاں شد از نظر یک لحظہ غافل گشتم وصد سالہ راہم دور شد !ایک چھوٹی سی غلطی انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ سیدھے راستہ سے آپ ذرا ساکج ہوگئے تو جتنا آپ آگے بڑھیں گے اسی قدر اس صراط مستقیم سے آپ کا فاصلہ بڑھتا چلا جائے گا۔ آغاز میں تو محض دس ڈگری کا اینگل تھا ‘ زیادہ فاصلہ نہیں تھا ‘ لیکن یہ دس ڈگری کا اینگل کھلتا چلا جائے گا اور آپ صراط مستقیم سے دور سے دور تر ہوتے چلے جائیں گے۔اللہ کرے کہ سورة الفاتحہ کو پڑھتے ہوئے ہم بھی اسی مقام پر کھڑے ہوں کہ ہمارا دل ٹھکا ہوا ہو ‘ ہمیں اللہ پر ایمان ‘ اللہ کی ربوبیتّ پر ایمان ‘ اللہ کی رحمانیتّ پر ایمان ‘ اللہ کے مالک یوم الدینّ ہونے پر ایمان حاصل ہو۔ یہ بھی ہمارا عزم ہو اور ہمارا طے شدہ فیصلہ ہو کہ اسی کی بندگی کرنی ہے ‘ اور پھر اس کے سامنے دست سوال دراز کریں کہ پروردگار ہمیں ہدایت عطا فرما !سورۃ الفاتحہ کے تین حصے اس سورة مبارکہ کے اسلوب کے حوالے سے اب میں اس کے مضامین کا تجزیہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اس سورة مبارکہ کو آپ تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلی تین آیات میں اللہ کی حمد و ثنا ہے ‘ آخری تین آیات میں اللہ سے دعا ہے ‘ جبکہ درمیان کی چوتھی آیت میں بندے کا اپنے رب سے ایک عہد و پیمان ہے۔ یہ گویا اللہ اور بندے کا ایک hand shake ہے۔جزوِ اوّل : پہلی تین آیات میں انسان کی طرف سے ان حقائق کا اظہار ہے جہاں تک وہ خود پہنچ گیا ہے۔ یہتین آیتیں مل کر ایک جملہ بنتی ہیں۔ گرامر کے اعتبار سے بھی یہ بڑی خوبصورت تقسیم ہے۔ پہلی تین آیتوں میں جو مل کر ایک جملہ بنتی ہیں اللہ کی حمدوثنا ہے۔

Surah Fatiha Translation and Tafseer Tazkeerul Quran by Maulana Wahiduddin khan .

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

شروع اللہ کے  نام  سے جو بڑامہربان،نہایت رحم والا ہے۔

بندے کے لیے کسی کام کا سب سے بہتر آغاز یہ ہے کہ وہ اپنے کام کو اپنے رب کے نام سے شروع کرے۔ وہ ہستی جو تمام رحمتوں کا خزانہ ہے اور جس کی رحمتیں ہر وقت ابلتی رہتی ہیں، اس کے نام سے کسی کام کا آغاز کرنا گویا اس سے یہ دعا کرنا ہے کہ تو اپنی بے پایاں رحمتوں کے ساتھ میری مدد پر آجا اور میرے کام کو خیر وخوبی کے ساتھ مکمل کردے۔ یہ بندے کی طرف سے اپنی بندگی کا اعتراف ہے اور اسی کے ساتھ اس کی کامیابی کی الٰہی ضمانت بھی۔

 

قرآن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مومن کے قلبی احساسات کےلیے صحیح ترین الفاظ مہیا کرتا ہے۔ بسم اللہ اور سورۂ فاتحہ اسی نوعیت کے دعائیہ کلام ہیں۔سچائی کو پالینے کے بعد فطری طورپر آدمی کے اندر جو جذبہ ابھرتا ہے، اسی جذبہ کو ان الفاظ میں مجسّم کردیاگیا ہے۔

 

آدمی کا وجود اس کے لیے اللہ کا ایک عظیم عطیہ ہے۔ اس کی عظمت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اگر کسی آدمی سے کہا جائے کہ تم اپنی دونوں آنکھوںکو نکلوادو یا دونوں پیروںکو کٹوا دو، اس کے بعد تم کو ملک کی بادشاہی دے دی جائے گی تو کوئی بھی شخص اس کے لیے تیار نہ ہوگا۔گویا کہ یہ ابتدائی قدرتی عطیے بھی بادشاہ کی بادشاہی سے زیادہ قیمتی ہیں۔ اسی طرح آدمی جب اپنے گردو پیش کی دنیا کو دیکھتا ہے تو یہاں ہر طرف خدا کی مالکیت اور رحیمیت ابلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس کو ہر طرف غیر معمولی اہتمام نظر آتا ہے۔اس کو دکھائی دیتا ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں حیرت انگیز طورپر انسانی زندگی کے موافق بنادی گئی ہیں۔ یہ مشاہدہ اس کو بتاتا ہے کہ کائنات کا یہ عظیم کارخانہ بے مقصد نہیں ہوسکتا۔ لازمی طورپر ایسا دن آنا چاہیے جب ناشکروں سے ان کی ناشکر گزارزندگی کی باز پرس کی جائے اور شکر گزاروں کو ان کی شکر گزار زندگی کا انعام دیا جائے۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ خدایا! تو فیصلہ کے دن کا مالک ہے۔ میں اپنے آپ کو تیرے آگے ڈالتا ہوں اور تجھ سے مدد چاہتا ہوں، تو مجھ کو اپنے سایہ میں لے لے۔ خدایا! ہم کو وہ راستہ دکھا جو تیرے نزدیک سچا راستہ ہے۔ ہم کو اس راستہ پر چلنے کی توفیق دے جو تیرے مقبول بندوں کا راستہ ہے۔ ہم کو اس راستے سے بچا جو بھٹکے ہوئے لوگوں کا راستہ ہےیا ان لوگوں کا جو اپنی ڈھٹائی کی وجہ سے تیرے غضب کا شکار ہوجاتے ہیں۔

 

اللہ کا مطلوب بندہ وہ ہے جو ان احساسات و کیفیات کے ساتھ دنیا میں جی رہا ہو۔ سورۂ فاتحہ اس بندۂ مومن کی چھوٹی تصویر ہے، اور بقیہ قرآن اس بندۂ مومن کی بڑی ت

صویر۔

Surah Fatiha 1 in Urdu Translation and Tafseer Fee Zilal al Quran by Sayyid Qutb,

بسم الله الرحمن الرحيم

اللہ کے  نام  سے جو بےانتہا  مہربان  اور رحم فرمانے والا ہے

سورة فاتحہ ایک نظر میں

 

اس مختصر اور سات آیتوں پر مشتمل چھوٹی سی صورت کو ایک مسلمان ‘ رات دن میں کم از کم سترہ مرتبہ دہراتا ہے اور جب وہ سنتیں پڑھتا ہے تو یہ تعداد اس سے بھی دوچند ہوجاتی ہے اور اگر کوئی فرائض وسنن کے علاوہ نوافل بھی پڑھتا ہے تو وہ اسے بیشمار مرتبہ دہراتا ہے ۔ اس سورت کی تلاوت کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ صحیح حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ” اس کی نماز نہیں ہوتی جس نے فاتحہ نہ پڑھی “اس سورت میں اسلامی عقائد کے بلند اصول ‘ اسلامی تصور حیات کے کلیات و مبادی اور انسانی شعور اور انسانی دلچسپیوں کے لئے نہایت ہی اہم اصولی ہدایات بیان کی گئی ہیں ‘ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کی ہر رکعت میں اس سورت کا پڑھنا ضروری قرار دیا ہے ‘ اور جس نماز میں اس سورت کی تلاوت نہ ہو اسے فاسد قرار دیا گیا ہے۔

 

اس سورت کا آغاز ”﷽“ سے ہوا ہے ۔ اس کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ ہر سورت کی ایک آیت ہے یا پورے قرآن مجید کی ایک آیت ہے ‘ اور صرف پڑھتے وقت ہر سورت کا آغاز اس سے کیا جاتا ہے ‘لیکن راسخ بات یہی ہے کہ بسم اللہ سورة فاتحہ کی ایک آیت ہے اور اس کو ملاکر ہی سورة فاتحہ کی آیتوں کی تعداد سات ہوتی ہے ۔ قرآن کریم میں آتا ہے : وَ لَقَد اٰتَینَکَ سَبعًا مِّنَ المَثَانِی وَ القُراٰنَ العَظِیمَ (حجر :87) ” ہم نے تم کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائے جانے کے لائق ہیں ‘ اور تمہیں قرآن کریم عطا کیا ۔ “ اس آیت کے مفہوم کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سورة فاتحہ ہے ‘ کیونکہ اس کی سات آیتیں ہیں اور اسے مثانی اس لئے کہا گیا ہے کہ اسے نماز میں باربار دہرایا جاتا ہے ۔

 

بسم اللہ سے آغاز کرنا ان اداب میں سے ہے جو اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو آغاز وحی کے وقت بتادیئے تھے ۔ اِقرَا بِاسمِ رَبِّکَ ” پڑھئے اپنے رب کے نام سے ۔ “ اور یہ ان آداب میں سے ہے ‘جو اسلامی تصور حیات کے اساسی عقیدے سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ھُوَ الاَوَّلُ وَ الاٰخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَ البَاطِنُ (حدید :3) ” وہی پہلے ہے ‘ وہی پیچھے ہے ‘ وہی ظاہر ہے ‘ وہی مخفی ہے۔ “ صرف اللہ موجود برحق اور حقیقی وجود رکھتا ہے اور تمام دوسرے موجودات اپنا وجود اس سے لیتے ہیں ۔ ہر چیز کا آغاز اس سے ہوتا ہے لہٰذا ایک مسلمان ہر آغاز اور ہر حرکت اسی کے نام سے کرتا ہے۔

 

اللہ کی صفات رحمان ورحیم ‘ جنہیں شروع میں لایا گیا ہے ۔ رحمت کے تمام حالات اپنے اندر لئے ہوئے ہیں ۔ ان دونوں کو یکجا طور پر اللہ ہی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ الرحمن اکیلا بھی صرف اللہ ہی کے لئے استعمال ہوسکتا ہے ۔یہ تو جائز ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی انسان کو بھی رحیم کہہ دیں لیکن اسلامی عقائد کی رو سے یہ جائز نہیں کہ ہم بندے کو رحمان کہیں ۔ افضل یہ ہے کہ اللہ کے لئے ان دونوں صفات کو بیک وقت استعمال کیا جائے یعنی ” رحمان ورحیم “ اگرچہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں سے کس لفظ کے معنی وسیع تر ہیں لیکن قرآن کے اس سائے میں ہمیں ایسی بحثوں سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے ‘ ہاں ان کا خاصہ یہ ہے کہ یہ دونوں صفات ملکہ رحمت کے تمام معانی ‘ تمام وسعتوں کو اپنے اندر لئے ہوئے ہیں ۔ ﷽سے آغاز کلام ‘ اللہ کی عظمت اور وحدانیت کے معانی پر مشتمل ہوتے ہوئے اگر اسلامی تصور حیات کا پہلا اصول ہے رحمان رحیم کی دوصفتوں میں رحمت کے تمام مفاہیم تمام حالات اور تمام وسعتوں کا سمو دینا ‘اسلامی تصور حیات کا دوسرا زریں اصول ہے ۔ جس سے ایک بندے اور اس کے اللہ کے درمیان تعلق کی صحیح نوعیت کا اظہار ہ

وتا ہے۔

Surah Fatiha Urdu Tafhimul Quran by Maulana Moudoodi R.

بسم الله الرحمن الرحيم

الله کے  نام  سے جو بے انتہا  مہربان  اور رحم فرمانے والا ہے

سورة الْفَاتِحَة نام : اس کا نام ’’ الفاتحہ ‘‘ اس کے مضمون کی مناسبت سے ہے ۔ ’’ فاتحہ ‘‘ اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی مضمون یا کتاب یا کسی شے کا افتتاح ہو ۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ یہ نام ’’ دیباچہ ‘‘ اور آغازِ کلام کا ہم معنی ہے ۔ زمانہ نزول : یہ نبوتِ محمدی کے بالکل ابتدائی زمانہ کی سورت ہے ۔ بلکہ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی مکمل سورت جو محمد ﷺ پر نازل ہوئی ، وہ یہی ہے ۔ اس سے پہلے صرف متفرق آیات نازل ہوئی تھیں جو سورہ علق ، سورہ مزمل اور سورہ مدثر وغیرہ میں شامل ہیں ۔ مضمون : دراصل یہ سورہ ایک دعا ہے جو خدا نے ہر اس انسان کو سکھائی ہے جو اس کی کتاب کا مطالعہ شروع کر رہا ہو ۔ کتاب کی ابتدا میں اس کو رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اس کتاب سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو پہلے خداوند عالَم سے یہ دعا کرو ۔ انسان فطرةً دعا اسی چیز کی کیا کرتا ہے جس کی طلب اور خواہش اس کے دل میں ہوتی ہے ، اور اسی صورت میں کرتا ہے جبکہ اسے یہ احساس ہو کہ اس کی مطلوب چیز اس ہستی کے اختیار میں ہے جس سے وہ دعا کر رہا ہے ۔ پس قرآن کی ابتدا میں اس دعا کی تعلیم دے کر گویا انسان کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ اس کتاب کو راہ راست کی جستجو کے لیے پڑھے ، طالبِ حق کی سی ذہنیت لے کر پڑھے ، اور یہ جان لے کہ علم کا سرچشمہ خداوندِ عالم ہے ، اس لیے اسی سے راہنمائی کی درخواست کر کے پڑھنے کا آغاز کرے ۔ اس مضمون کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن اور سورہ فاتحہ کے درمیان حقیقی تعلق کتاب اور اس کے مقدمہ کا سا نہیں بلکہ دعا اور جوابِ دعا کا سا ہے ۔ سورہ فاتحہ ایک دعا ہے بندے کی جانب سے ، اور قرآن اس کا جواب ہے خدا کی جانب سے ۔ بندہ دعا کرتا ہے کہ اے پروردگار ! میری رہنمائی کر ۔ جواب میں پروردگار پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت و رہنمائی جس کی درخواست تو نے مجھ سے کی ہے ۔ سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :1 اسلام جو تہذیب انسان کو سکھاتا ہے اس کے قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہر کام کی ابتدا خدا کے نام سے کرے ۔ اس قاعدے کی پابندی اگر شعور اور خلوص کے ساتھ کی جاۓ تو اس سے لازماً تین فائدے حاصل ہوں گے ۔ ایک یہ کہ آدمی بہت سے برے کاموں سے بچ جاۓ گا ، کیونکہ خدا کا نام لینے کی عادت اسے ہر کام شروع کرتے وقت یہ سوچنے پر مجبور کر دے گی کہ کیا واقعی میں اس کام پر خدا کا نام لینے میں حق بجانب ہوں ؟ دوسرے یہ کہ جائز اور صحیح اور نیک کاموں کی ابتدا کرتے ہوئے خدا کا نام لینے سے آدمی کی ذہنیت بلکل ٹھیک سمت اختیار کر لے گی اور وہ ہمیشہ صحیح ترین نقطہ سے اپنی حرکت کا آغاز کرے گا ۔ تیسرا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب وہ خدا کے نام سے اپنا کام شروع کرے گا تو خدا کی تائید اور توفیق اس کے شامل حال ہو گی ، اس کی سعی میں برکت ڈالی جاۓ گی اور شیطان کی فساد انگیزیوں سے اس کو بچایا جاۓ گا ۔ خدا کا طریقہ یہ ہے کہ جب بندہ اس کی طرف توجہ کرتا ہے تو وہ بھی بندے کی طرف توجہ فرماتا ہے ۔

Surah Fatiha urdu translation and Tafseer Tadabbar ul Quran by Amin Ahsan Islahi .

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

شروع  خدائے رحمٰن ورحیم کے  نام  سے

بسم اللہ الرحمن الرحیم تفسیر : (1) ۔ اس آیت کی تاریخی حیثیت :۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا مضمون بہت قدیم زمانہ سے اہل مذاہب میں نقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔ یہ فصیح وبلیغ الفاظ تو ممکن ہے پہلی مرتبہ قرآن مجید ہی میں نازل ہوئے ہوں، لیکن جہاں تک اس کے مضمون کا تعلق ہے یہ کسی کام کے آغاز و افتتاح کے لیے اس قدر موزونیت و مناسبت رکھتا ہے کہ دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تعلیم انسان کو بالکل شروع ہی میں دی ہوگی۔ چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق خود قرآن مجید میں یہ نقل ہے کہ انہوں نے اپنے باایمان متعلقین اور اپنے ساتھیوں کو جب کشتی میں سوار کرایا تو اس وقت اسی سے ملتے جلتے الفاظ کہے ” وَقَالَ ارْكَبُوْا فِيْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَ‍‍جۡؔرٖىہَا وَمُرْسٰىهَا ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ“ (ھود :41) ، اور اس نے کہا کہ اس میں سوار ہوجاؤ، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا، بیشک میرا رب بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ اسی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا کو جو نامہ کھا، اس کا آغاز بھی انہی مبارک کلمات سے کیا۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے :” اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “ (نمل :30): یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور اس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوا ہے۔ (2) ۔ یہ آیت دعا ہے۔ یہ کلام خبریہ نہیں ہے بلکہ سورة فاتحہ کی طرح، جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا۔ یہ دعا ہے۔ ایک سلیم الفطرت آدمی کے دل کی یہ ایک فطری صدا ہے جو ہر قابل ذکر کام کرتے وقت اس کی زبان سے نکلنی چاہئے۔ اسی فطری صدا کو وحی الٰہی نے الفاظ کا جامہ پہنا دیا ہے اور ایسا خوبصورت جامہ پہنایا ہے کہ اس سے زیادہ خوبصورت جامہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی کام کرنے سے پہلے جب یہ دعا ارادہ اور شعور کے ساتھ زبان سے نکلتی ہے تو اول تو پہلے ہی قدم پر انسان کو متنبہ کردیتی ہے کہ جو کام وہ کرنے جا رہا ہے وہ کام بہرحال خدا کی نافرمانی اور اس سے بغاوت کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کی پسند کے مطابق اور اس کے احکام کے تحت ہونا چاہئے۔ ثانیاً وہ اس دعا کی برکت سے خدا کی دو عظیم صفتوں۔ رحمن اور رحیم۔ کا سہارا حاصل کرلیتا ہے۔ یہ دونوں صفتیں اس بات کی ضمانت ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کام میں اس کو برکت عطا فرمائے، اس کے اختیار کرنے میں اگر اس سے کوئی غلطی ہوگئی ہے تو اس کے وبال سے اس کو محفوظ رکھے۔ اس کو نباہنے اور تکمیل تک پہنچانے کی اس کو قوت وہ ہمت دے، شیطان کی چالوں اور فریبوں سے اس کو امان میں رکھے اور دنیا میں بھی اس کام کو اس کے لیے نافع اور بابرکت بنائے اور آخرت میں بھی یہ اس کے لیے رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ بنے جو کام اس دعا کے بغیر کیا جاتا ہے وہ ان تمام برکتوں سے خالی ہوتا ہے اس وجہ سے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو کام ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ سے شروع نہ کیا جائے وہ بےبرکت ہے۔ بسم اللہ کی یہ برکتیں تو ہر کام کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں لیکن خاص قرآن کی تلاوت کا آغاز اس دعا سے کرنے میں کچھ اور پہلو بھی ہیں جو پیش نظر رکھنے چاہئیں۔ ایک یہ کہ ” بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “ سے قرآن مجید کی تلاوت کا آغاز کر کے بندہ اس حکم کی تعمیل کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بالکل ابتدائی وحی نازل کرتے وقت ہی دیا تھا ” اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَق “ (العلق :1) (اپنے خداوند کے نام سے پڑھ، جس نے پیدا کیا) ۔ دوسرا یہ کہ یہ مبارک کلمہ اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے اس کو نطق اور گویائی کی نعمت عطا فرمائی جس کی بدولت وہ قرآن کی نعمت کا مستحق بن سکا۔ اس حقیقت کی طرف اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمان اشارہ کر رہی ہے جس کا اس آیت میں حوالہ ہے۔ ایک دوسری جگہ یہ بات تصریح کے ساتھ کہی گئی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا، اس کو نطق کی قابلیت عطا فرمائی اور اس کو قرآن کی تعلیم دی۔ فرمایا ہے : ”۝ اَلرَّحْمٰنُعَلَّمَ الْقُرْاٰنَخَلَقَ الْاِنْسَانَعَلَّمَهُ الْبَيَانَ “ (الرحمن :1-4) ۔ (خدائے رحمان نے قرآن سکھایا، اس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو گویائی کی تعلیم دی) ۔ تیسرا یہ کہ یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن مجید سے متعلق ایک خاص پیشین گوئی کی تصدیق کر رہی ہے جس کی سند پچھلے آسمانی صحیفوں میں موجود ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ خلق خدا کو جو تعلیم دیں گے وہ اللہ کا نام لے کردیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پانچویں کتاب باب 18-19 میں یہ الفاظ وارد ہیں ” میں ان کے لیے انہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا “۔ چوتھا یہ کہ جس طرح قرآن مجید خدا کی صفت رحمانیت کا مظہر ہے اسی طرح اس کی صفت رحمانیت ہی ہے جو قرآن کے فتح باب کی کلید ہے، اسی سے اس کے بند دروازے کھلیں گے، اسی سے اس کی مشکلیں آسان ہوں گی، اسی منبع فیض سے قاری پر معانی وحقائق کا فیضان ہوگا اور اسی کے سہارے وہ کجی و گمراہی اور نفس اور شیطان کی آفتوں سے محفوظ رہے گا۔ (3) ۔ آیت کے اسمائے حسنی :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے تین ناموں کا ذکر آیا ہے۔ ” اللہ۔ رحمان۔ رحیم “۔ مختصراً ان کے مفہوم بھی سمجھ لینے چاہئیں۔ ” اللہ “: اللہ کا نام لفظ ” اِلٰہ “ پر الف لام تعریف داخل کر کے بنا ہے۔ یہ نام ابتداء سے صرف اس خدائے برتر کے لیے خاص رہا ہے جو آسمان و زمین اور تمام مخلوقات کا خالق ہے۔ نزول قرآن سے پہلے عرب جاہلیت میں بھی اس کا یہی مفہوم تھا۔ اہل عرب مشرک ہونے کے باوجود اپنے دیوتاؤں میں سے کسی کو بھی خدا کے برابر قرار نہیں دیتے تھے۔:: ان کو اس بات کا اقرار تھا کہ آسمان و زمین اور تمام مخلوقات کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، اسی نے سورج اور چاند بنائے ہیں، اسی نے ان کو مسخر کیا ہے اور وہی پانی برسانے والا اور روزی دینے والا ہے۔ دوسرے دیوتاؤں کی پرستش وہ محض اس غلط گمان کی بنا پر کرتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ہیں اور اس کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ان کے یہ خیالات نہایت تفصیل کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔ ہم اختصا کے خیال سے یہاں صرف دو تین آیتیں نقل کرتے ہیں۔ ” مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى“ (زمر :3) (ہم نہیں پوجتے ان کو مگر اس لیے کہ یہ اللہ سے ہم کو قریب کریں) ۔ ” وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ۔ اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَيَقْدِرُ لَهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم۔ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ “ (عنکبوت :61-63): (اگر تم ان سے پوچھو کس نے بنایا آسمانوں اور زمین کو اور مسخر کیا سورج اور چاند کو ؟ کہیں گے، اللہ نے۔ پھر کہا ان کی عقل الٹ جاتی ہے ! اللہ ہی روزی میں وسعت دیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اور تنگ کردیتا ہے اس کے لیے۔ اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ اور اگر ان سے پوچھو کس نے اتارا بادل سے پانی، پھر زندہ کی اس سے زمین اس کے خشک ہونے کے بعد، کہیں گے، اللہ نے) ۔ اسی طرح تمام قوتوں اور قابلیتوں، تمام زندگی اور موت اور کائنات کے تمام انتظام و انصرام کا حقیقی منبع اور مرکز بھی وہ اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ ” قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ “ (یونس :31): (ان سے پوچھو تم کو کون روزی دیتا ہے آسمان اور زمین سے یا کون اختیار رکھتا ہے تمہارے سمع و بصر پر اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے اور کون سارے معاملہ کا انتظام کرتا ہے ؟ جواب دیں گے، اللہ، پھر پوچھو تو اس اللہ سے ڈرتے نہیں ؟ ) ۔ رحمان اور رحیم :۔ اسم رحمان، غَضْبَان اور سَکْرَان کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اور اسم رحیم، علیم اور کریم کے وزن پر صفت کا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’ رحیم ‘ کے مقابل میں ’ رحمان ‘ میں زیادہ مبالغہ ہے اس وجہ سے ’ رحمان ‘ کے بعد ’ رحیم ‘ کا لفظ ان کے خیال میں ایک زائد لفظ ہے جس کی چنداں ضرورت تو نہیں تھی لیکن یہ تاکید مزید کے طور پر آگیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ عربی زبان کے استعمالات کے لحاظ سے فَعْلان کا وزن جوش و خروش اور ہیجان پر دلیل ہوتا ہے اور فعیل کا وزن دوام و استمرار اور پائیداری و استواری پر۔ اس وجہ سے ان دونوں صفتوں میں سے کوئی صفت بھی برائے بیت نہیں ہے بلکہ ان میں سے ایک خدا کی رحمت کے جوش و خروش کو ظاہر کر رہی ہے، دوسری اس کے دوام و تسلسل کو، غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ خدا کی رحمت اس خلق پر ہے بھی اسی نوعیت۔ اس میں جوش ہی جوش نہیں ہے، بلکہ پائیداری اور استقلال بھی ہے۔ اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ اپنی رحمانیت کے جوش میں دنیا پیدا تو کر ڈالی ہو لیکن پیدا کر کے پھر اس کی خبر گیری اور نگہداشت سے غافل ہوگیا ہو بلکہ اس کو پیدا کرنے کے بعد وہ اپنی پوری شان رحیمیت کے ساتھ اس کی پرورش اور نگہداشت بھی فرما رہا ہے۔ بندہ جب بھی اسے پکارتا ہے وہ اس کی پکار سنتا ہے اور اس کی دعاؤں اور التجاؤں کو شرفِ قبولیت بخشتا ہے۔ پھر اس کی رحمتیں اسی چند روزہ زندگی ہی تک محدود نہیں ہیں بلکہ جو لوگ اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے ان پر اس کی رحمت ایک ایسی ابدی اور لازوال زندگی میں بھی ہوگی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ ساری حقیقت اس وقت تک ظاہر نہیں ہوسکتی جب تک یہ دونوں لفظ مل کر اس کو ظاہر نہ کریں۔ (4) ۔ قرآن میں اس آیت کی جگہ :۔ اس آیت سے متعلق ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ قرآن مجید میں اس کی اصل جگہ کہاں ہے ؟ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ یوں تو یہ ہر سورة کے شروع میں ( سورة توبہ کے سوا) ایک مستقل آیت کی حیثیت سے لکھی ہوئی ہے لیکن کسی سورة میں بھی (سوائے سورة نمل) بظاہر اس کے ایک جزو کی حیثیت سے یہ شامل نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ یہ کسی خاص سورة کا حصہ بھی ہے یا ہر سورة کے اوپر یہ صرف بطور ایک متبرک آغاز اور ایک علامت امتیاز کے ثبت ہے۔ مدینہ، بصرہ اور شام کے قراء اور فقہاء کی رائے یہ ہے کہ یہ قرآن کی سورتوں میں سے کسی سورة کی بھی (بشمول سورة فاتحہ) آیت نہیں ہے بلکہ ہر سورة کے شروع میں اس کو محض تبرک اور ایک علامتِ فصل کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ اس سے ایک سورة دوسری سورة سے ممتاز بھی ہوتی ہے اور قاری جب اس سے کسی سورة کا افتتاح کرتا ہے تو اس سے برکت بھی حاصل کرتا ہے۔ یہی مذہب امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے۔ اس کے برعکس مکہ اور کوفہ کے فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ یہ سورة فاتحہ کی بھی ایک آیت ہے اور دوسری سورتوں کی بھی ایک آیت ہے۔ یہ مذہب امام شافعی (رح) اور ان کے اصحاب کا ہے۔ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی (رح) اس کو سورة فاتحہ کی ایک آیت اور دوسری سورتوں کے لیے بمنزلہ فاتحہ مانتے ہیں۔ مجھے قوی مذہب قرائے مدینہ کا معلوم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصحف کی موجودہ ترتیب تمام تر وحی الٰہی کی رہنمائی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات کے تحت عمل میں آئی ہے اور بسم اللہ کی کتابت بھی اسی ترتیب کا ایک حصہ ہے۔:: اس ترتیب میں جہاں تک بسم اللہ کے لکھے جانے کی نوعیت کا تعلق ہے سورة فاتحہ اور غیر سورة فاتحہ میں کسی قسم کا فرق نہیں کیا گیا ہے بلکہ ہر سورة کے آغاز میں اس کو ایک ہی طرح درج کیا گیا ہے۔ اس کی حیثیت سورة سے الگ ایک مستقل آیت کی نظر آتی ہے۔

 

Leave a Comment