Site icon islamtak.in

Surat ul Fatiha in Urdu translation and Tafsir ملك يوم الدين اردو ترجمہ و تفسیر –

مَـٰلِكِ يَوْمِ ٱلدِّينِ ٤

جزا و سزا کے دن کا مالک و مختار ہے ۔

مترجم ڈاکٹر اسرار احمد

Master of the day of judgment.

ملك يوم الدين اردو ترجمہ و تفسیر

Previous.       سورة الفاتحة          Next

ملك يوم الدين اردو

ترجمہ و تفسیر – ڈاکٹر اسرار احمد Surah Fatiha in Urdu translation  and Tafsir by Dr Israr Ahmed .

مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ”وہ جزا اور سزا کے دن کا مالک ہے“۔ وہ مختار مطلق ہے۔ قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے۔ کسی کی وہاں کوئی سفارش نہیں چلے گی ‘ کسی کا وہاں زور نہیں چلے گا ‘ کوئی دے دلا کر چھوٹ نہیں سکے گا ‘ کسی کو کہیں سے مطلقاً کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اس روز کہا جائے گا : لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ”آج کس کے ہاتھ میں اختیار اور بادشاہی ہے ؟“ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ ”اس اللہ کے ہاتھ میں ہے جو اکیلا ہے اور پوری کائنات پر چھایا ہوا ہے۔“اب دیکھئے گر امر کی رو سے یہ ایک جملہ مکمل ہوا : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ ”کل حمد و ثنا اور شکر اس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار اور مالک ہے ‘جو رحمن ہے ‘ رحیم ہے ‘ اور جو جزا و سزا کے دن کا مالک اور مختار مطلق ہے۔“جزو ثانی : سورة الفاتحہ کا دوسرا حصہ صرف ایک آیت پر مشتمل ہے ‘ جو ہر اعتبار سے اس سورة کی مرکزی آیت ہے :

Tafhimul ul Quran ( Moududi)Surat No. 1 Ayat NO. 3 ملك يوم الدين in Urdu .

ملك يوم الدين

روزِ جزا کا  مالک  ہے ۔

Surat No. 1 Ayat NO. 3 ملك يوم الدين

سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :5 یعنی اس دن کا مالک جبکہ تمام اگلی پچھلی نسلوں کو جمع کر کے ان کے کارنامہٴ زندگی کا حساب لیا جائیگا اور ہر انسان کو اس کے عمل کا پورا صِلہ یا بدلہ مل جائے گا ۔ اللہ کی تعریف میں رحمان اور رحیم کہنے کے بعد مالک روزِ جزا کہنے سے یہ بات نکلتی ہے کہ وہ نہایت مہربان ہی نہیں ہے بلکہ منصف بھی ہے ، اور منصف بھی ایسا بااختیار منصف کہ آخری فیصلے کے روز وہی پورے اقتدار کا مالک ہو گا ، نہ اس کی سزا میں کوئی مزاحم ہو سکے گا اور نہ جزا میں مانع ۔ لہذا ہم اس کی ربوبیت اور رحمت کی بنا پر اس سے محبت ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے انصاف کی بنا پر اس سے ڈرتے بھی ہیں اور یہ احساس بھی رکھتے ہیں کہ ہمارے انجام کی بھلائی اور بُرائی بالکُلّیہ اسی کے اختیار میں ہے ۔

Tafseer Ibn kaseer Surat ul Fatiha in Urdu translation and Tafsir ملك يوم الدين

Surat No. 1 Ayat NO. 3

حقیقی وارث ومالک کون ہے ؟ ٭٭ (آیت:۳) بعض قاریوں نے مَلِکِ پڑھا ہے اور باقی سب نے مٰلِکِ ور دونوں قراتیں صحیح اور متواتر ہیں اور سات قراتوں میں سے ہیں اور مالک کے لام کے زیر اور اس کے سکون کے ساتھ۔ اور مَلِیْکِ اور مَلِکِیْ بھی پڑھا گیا ہے۔ پہلے کی دونوں قراتیں معانی کی رو ترجیح ہیں اور دونوں صحیح ہیں اور اچھی بھی۔ ز مخشری نے مَلِکِ کو ترجیح دی ہے۔ اس لئے کہ حرمین والوں کی یہ قرأت ہے۔ اور قرآن میں بھی لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ‚ اور قَوْلُہُ الْحَقُّ وَلَہُ الْمُلْکُ ہے۔ امام ابو حنیفہؒ سے بھی حکایت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے مَلِکِ پڑھا اس بنا پر کہ فعل اور فاعل اور مفعول آتا ہے لیکن یہ شاذ اور بے حد غریب ہے۔ ابو بکر بن دائودؒ نے اس بارے میں ایک غریب روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے تینوں خلفاءؓ اور حضرت معاویہؓ اور ان کے لڑکے مالک پڑھتے تھے۔ ابن شہابؒ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے مروان نے مَلِکِ پڑھا۔ میں کہتا ہوں مروان کو اپنی اس قرات کی صحت کا علم تھا۔ راوی حدیث ابن شہاب کو علم نہ تھا۔ واللہ اعلم۔ ابن مردویہ نے کئی سندوں سے بیان کیا ہے کہ آنحضرت ؐمالک پڑھتے تھے۔ مالک کا لفظ ملک سے ماخوذ ہے۔ جیسے کہ قرآن میں ہے اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ الخ„ یعنی زمین اور اس کے اوپر کی تمام مخلوق کے مالک ہم ہی ہیں اور ہماری ہی طرف سب لوٹا کر لائے جائیں گے۔ اور فرمایا قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ… یعنی کہہ کہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب اور لوگوں کے مالک کی۔ اور ملک کا لفظ ملک سے ماخوذ ہے جیسے فرمایا لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ الخ یعنی آج ملک کس کا ہے‘ صرف اللہ واحد غلبہ والے کا ۔اور فرمایا قَوْلُہُ الْحَقُّ الخ اسی کا فرمان ہے اور اسی کا سب ملک ہے۔ اور فرمایا آج ملک رحمن ہی کا ہے اور آج کا دن کافروں پر بہت سخت ہے۔ اس فرمان میں قیامت کے دن کے ساتھ ملکیت کی تخصیص کرنے سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے‘ اس لئے کہ پہلے اپنا وصف رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ہونا بیان کر چکا ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں شامل ہیں۔ قیامت کے دن کے ساتھ اس کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس دن تو کوئی ملکیت کا دعویدار بھی نہ ہو گا۔ بلکہ بغیر اس حقیقی مالک کی اجازت کے زبان تک نہ ہلا سکے گا۔ جیسے فرمایا جس دن روح القدس اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے اور کوئی کلام نہ کر سکے گا۔ یہاں تک کہ رحمن اسے اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے گا۔ دوسری جگہ ارشاد ہے‘ سب آوازیں رحمن کے سامنے پست ہوں گی اور گنگناہٹ کے سوا کچھ نہ سنائی دے گا۔ اور فرمایا جب قیامت آئے گی اس دن بغیر اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت کے کوئی شخص نہ بول سکے گا۔ بعض ان میں سے بدبخت ہوں گے اور بعض سعادت مند۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہو گا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے۔ یَوْمِ الدِّیْنِ سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا دن ہے جس دن تمام بھلے‘ برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ ہاں اگر رب کسی برائی سے در گذر کر لے‘ یہ اس کا اختیاری امر ہے۔ صحابہؓ ‘تابعینؒ اور سلف صالحینؒ سے بھی یہی مروی ہے۔ بعض سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرنے پر قادر ہے۔ ابن جریر نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن بظاہر ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں ‘ہر ایک قول کا قائل دوسرے کے قول کی تصدیق کرتا ہے۔ ہاں پہلا قول مطلب پر زیادہ دلالت کرتا ہے۔ جیسے کہ فرمان ہے اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الخ اور دوسرا قول اس آیت کے مشابہ ہے جیسا کہ فرمایا وَیَوْمَ یَقُوْلُ کُنْ فَیَکُوْنُ ‚ یعنی جس دن کہے گا ’ہو‘‘ جا‘ بس اسی وقت ہو جائے گا واللہ اعلم- حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جیسے فرمایا ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اَلْمَلِکُ الخ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‘ بدترین نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا ہے جو شہنشاہ کہلائے۔ حقیقی بادشاہ اللہ کے سوا کوئی نہیں-„ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین کو قبضہ میں لے لے گا اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے‘ پھر فرمائے گا‘ میں بادشاہ ہوں۔ کہاں گئے زمین کے بادشاہ‘ کہاں ہیں تکبر والے-… قرآن عظیم میں ہے‘ کس کی ہے آج بادشاہی؟ فقط اللہ اکیلے‘ غلبہ والے کی۔ اور کسی کو ملک کہہ دینا یہ صرف مجازاً ہے جیسے کہ قرآن میں طالوت کو ملک کہا گیا اور وَکَانَ وَرَآئَ ھُمْ مَّلِکٌ کا لفظ آیا اور بخاری ومسلم میں ملوک کا لفظ آیا ہے اور قران کی آیت میں اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًاˆ یعنی تم میں انبیاء کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا‘ آیا ہے ۔دین کے معنی بدلے‘ جزا اور حساب کے ہیں۔ جیسے قرآن پاک میں ہے‘ اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے۔ اور جگہ اِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ‰ کیا ہم کو بدلہ دیا جائے گا ؟ حدیث میں ہے‘ دانا وہ ہے جو اپنے نفس سے خود حساب لے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کرے۔ٹجیسے کہ حضرت فاروق اعظمؓ کا قول ہے کہ تم خود اپنی جانوں سے حساب لو۔ اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کو خود وزن کر لو اس سے پہلے کہ وہ ترازو میں رکھے جائیں اور اس بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جائوجب تم اس اللہ کے سامنے پیش کئے جائو گے جس سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں۔ جیسے خود رب عالم نے فرما دیا‘ جس دن تم پیش کئے جائو گے‘ کوئی چھپی ڈھکی بات چھپے گی نہیں۔

Fee Zilal il Quran Surat ul Fatiha with urdu translation and Tafsir ملك يوم الدين

ملك يوم الدين

روز جزاء کا مالک ہے

Surat No. 1 Ayat NO. 3

مٰلِکِ یَومِ الدِّینِ روز جزاء کا مالک ہے۔ اس آیت میں اسلام کا وہ اصولی اور بنیادی عقیدہ بیان کیا گیا ہے جس کے اثرات پوری انسانی زندگی پر نہایت گہرے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے روزجزاء کے بارے میں ملکیت کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ جو قبضہ واستیلاء اور تصرف واختیار کے نہایت اعلیٰ درجے کو ظاہر کررہا ہے ۔ یوم الدین سے مراد قیامت کا روز جزاء ہے ۔ یاد رہے کہ نزول قرآن کے وقت بعض ایسے لوگ بھی تھے جو اللہ تعالیٰ کو الٰہ مانتے تھے ۔ اور اللہ کی صفت تخلیق پر بھی یقین رکھتے تھے ۔ اور کہتے تھے کہ اللہ ہی اس دنیا کو عدم سے وجود میں لایا اس کے باوجود وہ یوم جزاء اور حساب کتاب کے قائل نہ تھے ۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید کہتا ہے : وَلَئِن سَاَلتَھُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ لَیَقُولُنَّ اللّٰہ اگر آپ نے ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہیں گے اللہ نے ۔ اور دوسری جگہ میں ہے : بَل عَجِبُوآ اَن جَآئَہُم مُّنذِرٌ مِّنہُم فَقَالَ الکٰفِرُونَ ھٰذَا شَیئٌ عَجِیبٌ، أَ اِذَا مِتنَا وَ کُنَّا تُرَابًا ذٰلِکَ رَجعٌ م بَعِیدٌ(ق : ٣۔ ٢) انہیں یہ بات عجیب لگی کہ ان کے پاس خود ان میں سے ڈرانے ولا آیا ۔ کافروں نے کہا یہ اچھنبے کی بات ہے ۔ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی ہوجائیں گے تو پھر آنا عقل سے بعید کی بات ہے ۔ یوم آخرت پر ایمان اسلام کے اساسی عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ ہے اور لوگوں کے دل اور دماغ میں اس جہاں سے آگے دارآخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس پیدا کرنے میں اس کی اہمیت حددرجہ مسلمہ ہے ۔ اس عقیدے پہ ایمان لانے والے اس دنیائے دنی کی ضروریات کے حصول ہی میں منہمک نہیں ہوجاتے بلکہ اس عقیدے پر ایمان لانے کے بعد وہ دنیاوی حوائج و ضروریات سے بلند ہوکر سوچتے ہیں ۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ اس محدود مختصر عمر اور دنیا کے اس تنگ دائرہ مکافات میں انہیں اپنے اعمال حسنہ کی پوری جزاء ملتی ہے یا نہیں ۔ بلکہ ان کی تمام نیکی اور اللہ کی راہ میں تمام جدوجہد سے مقصود صرف اللہ کی رضاجوئی ہوتی ہے ۔ وہ اعمال کا بدلہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مانگتے ہیں ۔ خواہ وہ اس دنیا میں ملے یا آخرت میں ملے ۔ وہ مطمئن رہتے ہیں ۔ انہیں حق وصداقت پر بھروسہ ہوتا ہے ۔ وہ حق پر جم جاتے ہیں اور وہ دولت یقین وسعت قلب ونظر اور حسن خلق کے مالک ہوجاتے ہیں …. غرض یہ اصولی عقیدہ اس بات کے لئے معیاروکسوٹی ہے کہ کوئی انسان محض اپنی خواہشات ومرغوبات کا بندہ و غلام ہے یا اسے انسان کی انسانیت کے لائق آزادی وحریت بھی حاصل ہے ۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس جہاں میں دنیاوی اقدار مادی تصورات اور جاہلیت کو برتری حاصل ہے یا ربانی اقدار روحانی تصورات اور اسلامی نظریہ حیات کو جاہلیت کی منطق پہ غلبہ حاصل ہے ۔ نیز اس اصولی عقیدے کے ذریعے وہ بلند مقام نکھر کر سامنے آتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا ہے اور ناقص ناخالص اور منحرف تصورات حیات اور انسانیت کے اس بلند مقام کے درمیان فرق و امتیاز بھی واضح ہوجاتا ہے۔ جب تک انسانوں کے دل و دماغ میں یہ اصولی عقیدہ جاگزیں نہیں ہوجاتا اور لوگوں کے دلوں میں یہ اطمینان پیدا نہیں ہوجاتا کہ دنیاوی فوائد اور مادی مرغوبات انسان کا پورا مقدر نہیں ہے اور جب تک محدود عمر رکھنے والا یہ انسان یہ یقین نہیں کرلیتا کہ ایک آنے والی زندگی بھی ہے اور اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اگلے جہاں اور اس زندگی کے لئے بھی محنت کرے اس کے لئے قربانی دے حق کی نصرت کرے بھلائی میں تعاون کرے اور یہ کہ ان سب باتوں کا اجر اسے آخرت میں ملے گا اس وقت تک انسانی زندگی اسلامی نظام حیات کے مطابق استوار نہیں ہوسکتی ۔ عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے والا اور اس کا انکار کرنے والا اخلاق و شعور اور فکر وعمل میں ہرگز برابر نہیں ہوسکتے ۔ لہٰذا یہ دونوں گروہ اللہ کی مخلوقات کے علیحدہ علیحدہ انواع ہیں ۔ یہ دونوں مختلف طبائع رکھتے ہیں اور اس دنیا میں ان دونوں کا طرز عمل ہرگز ایک نہیں ہوسکتا اور نہ آخرت میں یہ دونوں ایک ہی طرح کے جزاء کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں ۔ لہٰذا یہ عقیدہ ان دونوں کے درمیان ایک واضح فرق و امتیاز کا باعث بن جاتا ہے۔

Surat ul Fatiha with urdu translation and Tafseer Tadabbar ul Quran by Ameen Ahsan Islahi ملك يوم الدين

Surat No. 1 Ayat NO. 3

ملك يوم الدين

جزا و سزا کے دن کا مالک

” مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ “: دین کا لفظ قرآن مجید میں کئی معنوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ 1: مذہب و شریعت کے معنی لیے مثلاً ” اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللّٰهِ يَبْغُوْنَ “ (آل عمران :83): (کیا خدا کے اتارے ہوئے مذہب کے سوا وہ کسی اور مذہب کے طالب ہیں) ۔ 2: قانونِ ملکی کے لیے مثلاً ” مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ “ (یوسف :76) ۔ (اس کو بادشاہ کے قانون کی رو سے یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ اپنے بھائی کو روک سکے) ۔ 3: اطاعت کے معنی کے لیے مثلاً ” وَلَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَهُ الدِّيْنُ وَاصِبًا “ (نحل :52) ۔ (اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اسی کی اطاعت ہمیشہ لازم ہے) ۔ 4 ۔ جزا کے معنی کے لیے مثلاً ” اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ۔ وَّاِنَّ الدِّيْنَ لَوَاقِــعٌ“ (ذاریات :6) (جس چیز کی تمہیں دھمکی سنائی جا رہی ہے وہ سچ ہے اور جزا و سزا واقع ہو کر رہے گی) ۔ جزا سے مراد اس کے دونوں پہلو میں نیک اعمال کا صلہ بھی اور برے کاموں کی سزا بھی۔ اس وجہ سے ہم نے ترجمہ میں جزا کے ساتھ سزا کا لفظ بھی بڑھا دیا ہے۔ جزا و سزا کے دن کا تنہا مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس روز سارا زور اور سارا اختیار اسی کو حاصل ہوگا۔ اس کے سبب عاجز و سرفگندہ ہوں گے کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس کی اجازت کے بغیر زبان کھول سکے۔ سارے معاملات کا فیصلہ تنہا وہی کرے گا جس کو چاہے گا سزا دے گا، جس کو چاہے گا انعام دے گا۔ جیسا کہ فرمایا ہے ” اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ ۭ يَحْكُمُ بَيْنَهُم “ (حج :56) (اس دن سارا اختیار اللہ ہی کو ہوگا، وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا) ۔ ” لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ “ (غافر :16) (آج کے دن بادشاہی کس کی ہے ؟ صرف خدائے واحد وقہار کی) ۔ اس آیت کے تین لفظوں میں جو بات پوشیدہ ہے وہ اگر پھیلا دی جائے تو پوری بات یوں ہوگی کہ ایک دن جزا اور سزا کا آنے والا ہے۔ اس دن سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہوگا اور اس کے آگے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ ہوگی، لیکن کلام کے دعائیہ اسلوب میں یہ بات اس طرح لپیت دی گئی ہے کہ دعا کرنے والا ایک ثابت شدہ حقیقت کی حیثیت سے ان سب باتوں کا اعتراف کرجاتا ہے۔ گویا خدا کی ربوبیت و رحمت اور اس کے عدل و انصاف کے ان آثار و دلائل کے بعد جو اس کائنات کے ہر گوشہ میں پھیلے ہوئے ہیں، ایک ہٹ دھرم کے سوا کون ہے، جو اس حقیقت کے کسی جزو کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کرسکے۔

Surah fatiha with urdu translation and Tafsir by Mufti Taqi Usmani ملك يوم الدين

ملك يوم الدين

جو روزِ جزا کا مالک ہے

(3) روز جزا کا مطلب ہے وہ دن جب تمام بندوں کو ان کے دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، یوں تو روز جزا سے پہلے بھی کائنات کی ہر چیز کا اصلی مالک اللہ تعالیٰ ہے ؛ لیکن یہاں خاص طور پر روز جزا کے مالک ہونے کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہی انسانوں کو بہت سی چیزوں کا مالک بنایا ہوا ہے، یہ ملکیت اگرچہ ناقص اور عارضی ہے تاہم ظاہری صورت کے لحاظ سے ملکیت ہی ہے، لیکن قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ جزا وسزا کا مرحلہ آئے گا تو یہ ناقص اور عارضی ملکیتیں بھی ختم ہوجائیں گی، اس وقت ظاہری ملکیت بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہ ہوگی۔

Exit mobile version