صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ ٧
The path of those upon whom You have bestowed favor, not of those who have earned [Your] anger or of those who are astray.
— Saheeh International
راہ ان لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا جو نہ تو مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ۔
(بیان القرآن (ڈاکٹر اسراحمد

Previous. Next
Surat ul Fatiha With urdu translation and Tafseer صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ ٧ ( Dr Israr Ahmed)
اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ 5 غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ آمین ! اب دیکھئے ‘ یہ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہی کی تشریح ہے جو آخری تین آیتوں میں ہے۔ ہمیں اللہ سے کیا مدد چاہیے ؟ پیسہ چاہیے ؟ دولت چاہیے ؟ نہیں نہیں ! اے اللہ ہمیں یہ نہیں چاہیے۔ پھر کیا چاہیے ؟ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ”ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما“۔ یہ جو زندگی کے مختلف معاملات میں دورا ہے ‘ سہ را ہے اور چورا ہے آجاتے ہیں ‘ وہاں ہم فیصلہ نہیں کرسکتے کہ صحیح کیا ہے ‘ غلط کیا ہے۔ لہٰذا اے اللہ ! ہمیں سیدھے راستہ کی طرف ہدایت بخش۔ ”اِھْدِ“ ہدایت سے فعل امر ہے کہ ہمیں ہدایت دے۔ ہدایت کا ایک درجہ یہ بھی ہے کہ سیدھا راستہ بتادیا جائے۔ ہدایت کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ سیدھا راستہ دکھا دیا جائے ‘ اور ہدایت کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ انگلی پکڑ کر سیدھے راستے پر چلایا جائے ‘ جیسے بچوں کو لے کر آتے ہیں۔ لہٰذا سیدھے راستے کی ہدایت کی دعا میں یہ سارے مفہوم شامل ہوں گے۔ اے اللہ ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے۔ اے اللہ ! اس سیدھے راستے کے لیے ہمارے سینوں کو کھول دے۔ اَللّٰھُمَّ نَوِّرْ قُلُوْبَنَا بالْاِیْمَانِ وَاشْرَحْ صُدُوْرَنَا لِلْاِسْلَامِ ”اے اللہ ! ہمارے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کر دے اور ہمارے سینوں کو اسلام کے لیے کھول دے“۔ ہمیں اس پر انشراح صدر ہوجائے۔ اور پھر یہ کہ ہمیں اس سیدھے راستے کے اوپر چلا۔اب آگے اس صراط مستقیم کی بھی وضاحت ہے ‘ اور یہ وضاحت دو طرح سے ہے۔صراط مستقیم کی وضاحت ایک مثبت انداز میں اور ایک منفی انداز میں کی گئی ہے۔ مثبت انداز یہ ہے کہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ”اے اللہ ! ان لوگوں کے راستہ پر ہمیں چلا جن پر تو نے اپنا انعام نازل فرمایا“۔ یہ مضمون جا کر سورة النساء میں کھلے گا کہ منعم علیہم چار گروہ ہیں : مِنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا ”کہ وہ نبی ‘ صدّ یقین ‘ شہداء اور صالحین ہیں۔ اور بہت ہی خوب ہے ان کی رفاقت“۔ اے اللہ ! ان کے راستہ پر ہمیں چلا۔ یہ تو مثبت بات ہوگئی۔ منفی انداز یہ اختیار فرمایا : غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ”نہ ان پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ہی وہ گمراہ ہوئے“۔جو لوگ صراط مستقیم سے بھٹک گئے وہ دو قسم کے ہیں۔ ان میں فرق یہ ہے کہ جو شرارت نفس کی وجہ سے غلط راستہ پر چلتا ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے ‘ اور جس کی نیت تو غلط نہیں ہوتی ‘ لیکن وہ غلو کر کے جذبات میں آکر کوئی غلط راستہ اختیار کرلیتا ہے تو وہ ضالّّ گمراہ ہے۔ چناچہ ”مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ“ کی سب سے بڑی مثال یہود ہیں کہ اللہ کی کتاب ان کے پاس تھی ‘ شریعت موجود تھی ‘ لیکن شرارت نفس اور تکبر کی وجہ سے وہ غلط راستہ پر چل پڑے۔ جبکہ نصاریٰ ”ضَآلِّیْن“ ہیں ‘ انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں صرف غلو کیا ہے۔جیسے ہمارے یہاں بھی بعض نعت گو اور نعت خواں نبی کریم کی شان بیان کرتے ہیں تو مبالغہ آرائی کرتے ہوئے کبھی انہیں اللہ سے بھی اوپر لے جاتے ہیں۔ یہ غلو ہوتا ہے ‘ لیکن ہوتا ہے نیک نیتی سے ‘ محبت سے۔ چناچہ نصاریٰ نے حب رسول میں غلو سے کام لیتے ہوئے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنا دیا۔ ہمارے شیعہ بھائیوں میں سے بھی بعض لوگ ہیں جو حضرت علی کو خدا ہی بنا بیٹھے ہیں۔ مثلاً ”لیکن نہیں ہے ذات خدا سے جدا علی !“بہرحال یہ غلو ہوتا ہے جو انسان کو گمراہ کردیتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے : قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ المائدۃ : 77 ”اے کتاب والو ! اپنے دین میں ناحق غلو سے کام نہ لو“۔ لیکن نصاریٰ نے اپنے دین میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی محبت میں غلو سے کام لیا تو وہ گمراہ ہوگئے۔ تو اے اللہ ! ان سب کے راستے سے ہمیں بچا کر سیدھے راستے پر چلا ‘ جو صدّ یقین کا ‘ انبیاء کا ‘ شہداء کا اور صالحین کا راستہ ہے۔حدیث قدسی آخر میں وہ حدیث قدسی پیش کر رہا ہوں جس میں سورة الفاتحہ ہی کو الصَّلَاۃ نماز قرار دیا گیا ہے۔ یہ مسلم شریف کی روایت ہے اور حضرت ابوہریرہ اس کے راوی ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ ‘ فَاِذَا قَالَ الْعَبْدُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ قَال اللّٰہُ تَعَالٰی : حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ ‘ وَاِذَا قَالَ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَال اللّٰہُ تَعَالٰی :حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ ‘ وَاِذَا قَالَ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَال اللّٰہُ تَعَالٰی : اَثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِیْ ‘ وَاِذَا قَالَ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ قَالَ مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ وَقَالَ مَرَّۃً : فَوَّضَ اِلَیَّ عَبْدِیْ فَاِذَا قَالَ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ قَالَ ہٰذَا بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ ‘ فَاِذَا قَالَ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ قَالَ ہٰذَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ 7”میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو برابر حصوں میں تقسیم کردیا ہے اس کا نصف حصہ میرے لیے اور نصف حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ عطا کیا گیا جو اس نے طلب کیا۔ جب بندہ کہتا ہے : ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی میرا شکر ادا کیا۔ جب بندہ کہتا ہے : ”الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثنا کی۔ جب بندہ کہتا ہے : ”مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ تو اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی اور بڑائی بیان کی اور ایک مرتبہ آپ نے یہ بھی فرمایا : ”میرے بندے نے اپنے آپ کو میرے سپرد کردیا گویا یہ پہلا حصہ کل کا کل اللہ کے لیے ہے۔ پھر جب بندہ کہتا ہے : ”اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حصہ میرے اور میرے بندے کے مابین مشترک ہے اور میں نے اپنے بندے کو بخشا جو اس نے مانگا۔ گویا یہ حصہ ایک قول وقرار اور عہد و میثاق ہے۔اسے میں نے کہا تھا کہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان hand shake ہے۔ پھر جب بندہ کہتا ہے : ”اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ“ تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ حصہ کل کا کل میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مجھ سے طلب کیا وہ میں نے اسے بخشا“۔اس حدیث کی رو سے سورة الفاتحہ کے تین حصے بن جائیں گے۔ پہلا حصہ کلیتاً اللہ کے لیے ہے اور آخری حصہ کلیتاً بندے کے لیے ‘ جبکہ درمیانی و مرکزی آیت : ”اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ“ بندے اور اللہ کے مابین قول وقرار ہے۔ گویا اس کا بھی نصفِ اوّل اللہ کے لیے اور نصف ثانی بندے کے لیے ہے۔ اس طرح نصف نصف کی تقسیم بتمام و کمال پوری ہوگئی !ایک بات یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اس حدیث قدسی میں ”قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ“ کے بعد آیت ”بسم اللہ“ کا ذکر نہیں ہے ‘ بلکہ ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ“ سے بات براہ راست آگے بڑھتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس ضمن میں امام ابوحنیفہ رح کا موقف درست ہے کہ آیت بسم اللہ سورة الفاتحہ کا جزو نہیں ہے۔اس سورة مبارکہ کے اختتام پر ”آمین“ کہنامسنون ہے۔ ”آمین“ کے معنی ہیں ”اے اللہ ایسا ہی ہو !“ اس سورة مبارکہ کا اسلوب چونکہ دعائیہ ہے ‘ لہٰذا دعا کے اختتام پر ”آمین“ کہہ کر بندہ گویا پھر بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتا ہے کہ اے پروردگار ! میں نے یہ عرضداشت تیرے حضور پیش کی ہے ‘ تو اسے شرف قبول عطا فرما !بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم
Surat ul Fatiha صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ ٧ ( Urdu – Tafhim ul Quran Moududi)
صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ ٧
ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا
جو معتوب نہیں ہوئے ، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہے
سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :9 یہ اس سیدھے راستہ کی تعریف ہے جس کا علم ہم اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں ۔ یعنی وہ راستہ جس پر ہمیشہ سے تیرے منظورِ نظر لوگ چلتے رہے ہیں ۔ وہ بے خطا راستہ کہ قدیم ترین زمانہ سے آج تک جو شخص اور جو گروہ بھی اس پر چلا وہ تیرے انعامات کا مستحق ہوا اور تیری نعمتوں سے مالا مال ہو کر رہا ۔
سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :10 یعنی ’’ انعام ‘‘ پانے والوں سے ہماری مراد وہ لوگ نہیں ہیں جو بظاہر عارضی طور پر تیری دُنیوی نعمتوں سے سرفراز تو ہوتے ہیں مگر دراصل وہ تیرے غضب کے مستحق ہوا کرتے ہیں اور اپنی فلاح و سعادت کی راہ گم کیے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس سلبی تشریح سے یہ بات خود کھل جاتی ہے کہ ’’ انعام ‘‘ سے ہماری مراد حقیقی اور پائیدار انعامات ہیں جو راست روی اور خدا کی خوشنودی کے نتیجہ میں ملا کرتے ہیں ، نہ کہ وہ عارضی اور نمائشی انعامات جو پہلے بھی فرعونوں اور نمرودوں اور قارونوں کو ملتے رہے ہیں اور آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے ظالموں اور بدکاروں اور گمراہوں کو ملے ہوئے ہیں ۔
Tafseer ibn kaseer – Tafseer in Urdu صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ ٧
مغضوب کون؟ ٭٭ (آیت:۶) ان کی راہ سے بچا‘ جن پر غضب و غصہ کیا گیا‘ جن کے ارادے فاسد ہو گئے‘ حق کو جان کر پھر اس سے ہٹ گئے اور گم گشتہ راہ لوگوں کے طریقے سے بھی ہمیں بچا لے جو سرے سے علم نہیں رکھتے‘ مارے مارے پھرتے ہیں‘ راہ سے بھٹکے ہوئے حیران و سرگرداں ہیں اور راہ حق کی طرف رہنمائی نہیں کئے جانے کو دوبارہ لاکر کلام کی تاکید کرنا اس لئے ہے کہ معلوم ہو جائے کہ یہاں دو غلط راستے ہیں۔ ایک یہود کا دوسرا نصاریٰ کا۔ بعض نحوی کہتے ہیں کہ غَیْرِ کا لفظ یہاں پر استثناء کے لئے ہے تو استثناء منقطع ہو سکتا ہے کیونکہ جن پر انعام کیا گیا ہے ان میں سے استثناء ہونا تو درست ہے مگر یہ لوگ انعام والوں میں داخل ہی نہ تھے۔ لیکن ہم نے جو تفسیر کی ہے‘ یہ بہت اچھی ہے عرب شاعروں کے شعر میں ایسا پایا جاتا ہے کہ وہ موصوف کو حذف کر دیتے ہیں اور صرف صفت بیان کر دیا کرتے ہیں اسی طرح اس آیت میں بھی صفت کا بیان ہے اور موصوف محذوف ہے۔ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ سے مراد غَیْرِ الْصِرَاطِ الْمَغْضُوْبِ ہے۔ مضاف الیہ کے ذکر سے کفایت کی گئی اور مضاف بیان نہ کیا گیا۔ اس لئے کہ نشست الفاظ ہی اس پر دلالت کر رہی ہے۔ پہلے دو مرتبہ یہ لفظ آچکا ہے۔ بعض کہتے ہیں وَلَا الضَّآلِّیْنَ میں لَا زائد ہے اور ان کے نزدیک تقدیر کلام اس طرح ہے غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَالضَّآلِّیْنَ اور اس کی شہادت عرب شاعروں کے شعر سے بھی ملتی ہے لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَغِیْرِ الضَّآلِیْنَ پڑھنا صحیح سند سے مروی ہے۔ اور اسی طرح حضرت ابی بن کعب سے بھی روایت ہے اور یہ محمول ہے اس پر کہ ان بزرگوں سے یہ بطور تفسیر صادر ہوا۔ تو ہمارے قول کی تائید ہوئی کہ لا نفی کی تاکید کے لئے ہی لایا گیا ہے تاکہ یہ وہی نہ ہو کہ یہ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ پر عطف ہے اور اس لئے بھی کہ دونوں راہوں کا فرق معلوم ہو جائے تاکہ ہر شخص ان دونوں سے بھی بچتا رہے۔ اہل ایمان کا طریقہ تو یہ ہے کہ حق کا علم بھی ہو اور حق پر عمل بھی ہو۔ یہودیوں کے ہاں عمل نہیں اور نصاریٰ کے ہاں علم نہیں۔ اسی لئے یہودیوں پر غضب ہوا اور نصرانیوں کو گمراہی ملی۔ اس لئے کہ علم کے باوجود عمل کو غضب کا چھوڑنا سبب ہے اور نصرانی گو ایک چیز کا قصد کرنے کے باوجود صحیح راستہ کو نہیں پا سکتے اس لئے کہ ان کا طریقہ کا رغلط ہے اور اتباع حق سے ہٹے ہوئے ہیں۔ یوں تو غضب اور گمراہی ان دونوں جماعتوں کے حصہ میں ہے لیکن یہودی غضب کے حصہ میں پیش پیش ہیں۔ جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں ہے مَنْ لَّعَنَہُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ اور نصرانی ضلالت میں بڑھے ہوئے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے قَدْ ضَلُّوْ مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْ کَثِیْرًا وَّضََلُّوْا عَنْ سَوَآئِ السَّبِیْلِ ‚ یعنی یہ پہلے ہی سے گمراہ ہیں اور بہتوں کو گمراہ کر بھی چکے ہیں اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ اس کی تائید میں بہت سی حدیثیں اور روایتیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مسند احمد میں ہے۔ حضرت عدی بن حاتم ؓفرماتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکر نے میری پھوپھی اور چند اور لوگوں کو گرفتار کر کے حضورؐ کی خدمت میں پیش کیا تو میری پھوپھی نے کہا‘ میری خبر گیری کرنے والا غائب ہے اور میں عمر رسیدہ بڑھیا ہوں جو کسی خدمت کے لائق نہیں‘ آپ مجھ پر احسان کیجئے اور مجھے رہائی دیجئے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر بھی احسان کرے گا۔ حضورؐ نے دریافت کیا کہ تیری خیر خبر لینے والا کون ہے ؟ اس نے کہا عدی بن حاتم۔ آپؐ نے فرمایا وہی جو اللہ اور رسول سے بھاگتا پھرتا ہے؟ پھر آپ نے اسے آزاد کر دیا۔ جب لوٹ کر آپ آئے تو آپ کے ساتھ ایک شخص تھے اور غالباً وہ حضرت علیؓ تھے۔ آپؐ نے فرمایا‘ لو ان سے سواری مانگ لو۔ میری پھوپھی نے ان سے درخواست کی جو منظور ہوئی اور سواری مل گئی ۔وہ یہاں سے آزاد ہو کر میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ حضورؐ کی سخاوت نے تیرے باپ حاتم کی سخاوت کو بھی ماند کر دیا‘ آپ کے پاس جو آتا ہے وہ خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا۔ یہ سن کر میں بھی حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میں نے دیکھا کہ چھوٹے بچے اور بڑھیا عورتیں بھی آپؐ کی خدمت میں آتی جاتی ہیں اور آپ ان سے بھی بے تکلفی کے ساتھ بولتے ہیں۔ اس بات نے مجھے یقین دلا دیا کہ آپ قیصر و کسریٰ کی طرح بادشاہت اور وجاھت کے طلب کرنے والے نہیں۔ آپؐ نے مجھے دیکھ کر فرمایا‘ عدی لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہنے سے کیوں بھاگتے ہو ؟ کیا اللہ کے سوا اور کوئی عبادت کے لائق ہے ؟ اَللّٰہُ اَکْبر کہنے سے کیوں منہ موڑتے ہو ؟ کیا اللہ عزوجل سے بھی بڑا کوئی ہے ؟ مجھ پر ان کلمات نے آپ کی سادگی اور بے تکلفی نے ایسا اثر کیا کہ میں فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا جس سے آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ سے مراد یہود ہیں اور الضَآلِّیْنَ سے مراد نصاریٰ ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت عدی ؓکے سوال پر حضورؐ نے یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی۔ اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں اور مختلف الفاظ سے مروی ہے۔ بنوقین کے ایک شخص نے وادی القریٰ میں حضور سے یہی سوال کیا آپ نے جواب میں یہی فرمایا۔ بعض روایتوں میں ان کا نام عبد اللہ ابن عمروؓ ہے۔ واللہ اعلم۔ ابن مردویہ میں ابو ذر ؓسے بھی یہی روایت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ‘حضرت ابن مسعودؓ اور بہت سے صحابیوں سے بھی یہ تفسیر منقول ہے۔ ربیع بن انس عبد الرحمن بن زید بن اسلم وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں بلکہ ابن ابی حاتم تو فرماتے ہیں کہ مفسرین میں اس بارے میں کوئی اختلاف ہی نہیں۔ ان ائمہ کی اس تفسیر کی دلیل ایک تو وہ حدیث ہے جو پہلے گذری۔ دوسری سورۂ بقرہ کی یہ آیت جس میں بنی اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا ہے بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٰٓ الخ اس آیت میں کہ اس پر غضب پر غضب نازل ہوا۔ اور سورۂ مائدہ کی آیت قُلْ ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ الخ ‚میں بھی ہے کہ ان پر غضب الٰہی نازل ہوا۔ اور جگہ فرمان الٰہی ہے لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا الخ یعنی بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا‘ ان پر لعنت کی گئی۔ دائود علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی زبانی یہ بوجہ ان کی نافرمانی اور حد سے گذر جانے کے ہے‘ یہ لوگ کسی برائی کے کام سے آپس میں روک ٹوک نہیں کرتے تھے یقینا ان کے کام بہت برے تھے اور تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل جبکہ دین خالص کی تلاش میں اپنے ساتھیوں سمیت نکلے اور ملک شام میں آئے تو ان سے یہودیوں نے کہا کہ آپ ہمارے دین میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک غضب الٰہی کا ایک حصہ نہ پالو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس سے بچنے کے لئے تو دین حق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ پھر اسے کیسے قبول کر لیں؟ پھر نصرانیوں سے ملے‘ انہوں نے کہا جب تک خداوند تعالیٰ کی ناراضگی کا حصہ نہ لیں تب تک آپ ہمارے دین میں نہیں آسکتے۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے چنانچہ وہ اپنی فطرت پر ہی رہے۔ بتوں کی عبادت اور قوم کا دین چھوڑ دیا لیکن یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی۔ البتہ زید کے ساتھیوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ اس لئے کہ یہودیوں کے مذہب سے یہ ملتا جلتا تھا انہی میں حضرت ورقہ بن نوفل تھے۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا زمانہ ملا اور ہدایت الٰہی نے ان کی رہبری کی اور یہ حضورؐ پر ایمان لائے اور جو وحی اس وقت تک اتری تھی‘ اس کی تصدیق کی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ مسئلہ : ٭٭ ضاد اور ظے کی قرأت میں بہت باریک فرق ہے اور ہر ایک کے بس کا نہیں۔ اس لئے علمائے کرام کا صحیح مذہب یہ ہے کہ یہ فرق معاف ہے‘ ضاد کا صحیح مخرج تو یہ ہے کہ زبان کا اول کنارہ اور اس کے پاس کی داڑھیں اور ظے کا مخرج زبان کا ایک طرف اور سامنے والے اوپر کے دو دانت کے کنارے۔ دوسرے یہ کہ یہ دونوں حرف مجہورہ اور رخوہ اور مطبقہ ہیں۔ پس اس شخص کو جسے ان دونوں میں تمیز کرنی مشکل معلوم ہو‘ اسے معاف ہے کہ ضاد کو ظے کی طرح پڑھ لے۔ ایک حدیث میں ہے کہ میں ضاد کو سب سے زیادہ صحیح پڑھنے والا ہوں لیکن یہ حدیث بالکل بے اصل اور لاپتہ ہے۔ الحمد کا تعارف ومفہوم : ٭٭ یہ مبارک سورت نہایت کارآمد مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان سات آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد‘ اس کی بزرگی‘ اس کی ثنا و صفت اور اس کے پاکیزہ ناموں کا اور اس کی بلند و بالا صفتوں کا بیان ہے۔ ساتھ ہی قیامت کے دن کا ذکر ہے اور بندوں کو ارشاد ہے کہ وہ اس مالک سے سوال کریں۔ اس کی طرف تضرع و زاری کریں‘ اپنی مسکینی اور بے کسی اور بے بسی کا اقرار کریں اور اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں اور اس کی توحید الوہیت کا اقرار کریں۔ اسے شریک‘ نظیر اور مثل سے پاک اور برتر جانیں۔ صراط مستقیم اور اس پر ثابت قدمی اس سے طلب کریں تاکہ یہی ہدایت انہیں قیامت والے دن پل صراط سے بھی پار اتارے اور نبیوں‘ صدیقوں‘ شہیدوں اور صالحوں کے پڑوس میں جنت الفردوس میں جگہ دلائے۔ ساتھ ہی اس سورت میں نیک اعمال کی ترغیب ہے تاکہ قیامت کے دن نیکوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے ڈراوا پیدا ہو تاکہ قیامت کے دن بھی یہ باطل پرست یہود و نصاریٰ کی جماعت سے دورہی رہیں۔ اس باریک نکتہ پر بھی غور کیجئے کہ انعام کی اسناد تو اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی اور اَنْعَمْتَ کہا گیا لیکن غضب کی اسناد اللہ کی طرف نہیں کی گئی۔ یہاں فاعل حذف کر دیا اور مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کہا گیا۔ اس میں پرودگار عالم کی جناب میں ادب کیا گیا ہے۔ دراصل حقیقی فاعل اللہ تعالیٰ ہی ہے جیسے اور جگہ ہے غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ اور اسی طرح ضلالت کی اسناد بھی ان کی طرف کی گئی جو گمراہ ہیں حالانکہ اور جگہ ہے مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ الخ‚ یعنی اللہ جسے راہ دکھائے وہ راہ یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے‘ اس کا رہنما کوئی نہیں۔ اور جگہ فرمایا مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ الخ یعنی جسے اللہ گمراہ کر دے‘ اس کا ہادی کوئی نہیں۔ وہ تو اپنی سرکشی میں بہکے رہتے ہیں۔ اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ راہ دکھانے والا گمراہ کرنے والا صرف سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے۔ قدر یہ فرقہ جو ادھر ادھر کی متشابہ آیتوں کو دلیل بنا کر کہتا ہے کہ بندے خود مختار ہیں۔ وہ خود پسند کرتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ صریح اور صاف صاف آیتیں ان کے رد میں موجود ہیں لیکن باطل پرست فرقوں کا یہی قاعدہ ہے کہ صراحت کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگا کرتے ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے لگتے ہیں تو سمجھ لو کہ انہی لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا ہے۔ تم ان کو چھوڑ دو۔„ حضورؐ کا اشارہ اس فرمان میں اس آیت شریف کی طرف ہے فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ الخ…یعنی جن لوگوں کے دل میں کجی ہے‘ وہ متشابہ کے پیچھے لگتے ہیں۔ فتنوں اور تاویل کو ڈھونڈنے کے لئے الحمد للہ بدعتیوں کے لئے قرآن پاک میں صحیح دلیل کوئی نہیں۔ قرآن کریم تو حق و باطل‘ ہدایت و ضلالت میں فرق کرنے کے لئے آیا ہے‘ اس میں تناقص اور اختلاف نہیں۔ یہ تو حکم وحمید اللہ کا نازل کردہ ہے۔ آمین اور سورۂ فاتحہ: ٭٭ سورۂ فاتحہ کو ختم کر کے آمین کہنا مستحب ہے۔ آمین مثل یاسین کے ہے اور آمین بھی کہا گیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اے اللہ تو قبول فرما۔ آمین کہنے کے مستحب ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد‘ ابو دائود اور ترمذی میں وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں‘ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ کہہ کر آمین کہتے تھے اور آواز دراز کرتے تھے۔ ابو دائود میں ہے آواز بلند کرتے تھے۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن کہتے ہیں۔ حضرت علی‘ حضرت ابن مسعود‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمین پہلی صف والے لوگ جو آپ کے قریب ہوتے‘ سن لیتے۔ ابو دائود اور ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے۔ ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی۔ دارقطنی میں بھی یہ حدیث ہے اور دارقطنی بتاتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے‘ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے تھے۔ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کیجئےˆ (ابودائود)حسن بصریؒ اور جعفر صادق ؒسے آمین کہنا مروی ہے جیسے کہ آمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قرآن میں ہے۔ ہمارے اصحاب وغیرہ کہتے ہیں‘ جو نماز میں نہ ہو اسے بھی آمین کہنا چاہئے۔ ہاں جو نماز میں ہو اس پر تاکید زیادہ ہے۔ نمازی خود اکیلا ہو خواہ مقتدی ہو خواہ امام ہو‘ ہر حالت میں آمین کہے۔ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب امام آمین کہے‘ تم بھی آمین کہو۔ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے‘ اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ مسلم شریف میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا‘ جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں اور ایک کی آمین دوسرے کی آمین سے مل جاتی ہے تو اس کے تمام پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‚مطلب یہ ہے کہ اس کی آمین کا اور فرشتوں کی آمین کا وقت ایک ہی ہو جائے یا موافقت سے مراد قبولیت میں موافق ہونا ہے یا اخلاص میں۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جب امام وَلَا الضَّآلِّیْنَ کہے تو آمین کہو‘ اللہ قبول فرمائے گا۔ ابن عباسؓ نے حضورؐ سے دریافت کیا‘ آمین کے کیا معنی ہیں۔ آپ ؐنے فرمایا اے اللہ تو کر۔ جوہریؒ کہتے ہیں‘ اس کے معنی ’اسی طرح ہو‘‘ ہیں۔ ترمذی کہتے ہیں‘ اس کے معنی ہیں کہ ہماری امیدوں کو نہ توڑ ۔اکثر علماء فرماتے ہیں‘ اس کے معنی ’اے اللہ تو ہماری دعا قبول فرما‘‘ کے ہیں۔ مجاہدؒجعفر صادق ہلال بن سیافؒ فرماتے ہیں کہ آمین اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ ابن عباسؓ سے مرفوعاً بھی یہ مروی ہے لیکن صحیح نہیں۔ امام مالکؒ کے اصحاب کا مذہب ہے کہ امام آمین نہ کہے‘ مقتدی آمین کہے کیونکہ موطا مالک کی حدیث میں ہے کہ جب امام وَلَاالضَّآلِّیْنَ کہے تو تم آمین کہو۔„ اسی طرح ان کی دلیل کی تائید میں صحیح مسلم والی ابو موسیٰ اشعریؒ کی یہ روایت بھی آتی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جب امام وَلَاالضَّآلِّیْنَ کہے تو تم آمین کہو۔…لیکن بخاری ومسلم کی حدیث پہلے بیان ہو چکی کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھ کر آمین کہتے تھے۔ ’آمین ‘‘باآواز بلند: ٭٭ جہری نمازوں میں مقتدی اونچی آواز سے آمین کہے یا نہ کہے‘ اس میں ہمارے ساتھیوں کا اختلاف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر امام آمین کہنی بھول گیا ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین کہیں۔ اگر امام نے خود اونچی آواز سے آمین کہی ہو تو نیا قول یہ ہے کہ مقتدی باآواز بلند نہ کہیں۔ امام ابو حنیفہؒ کا یہی مذہب ہے اور ایک روایت میں امام مالکؒ سے بھی مروی ہے اس لئے کہ نماز کے اور اذکار کی طرح یہ بھی ایک ذکر ہے تو نہ وہ صرف بلند آواز سے پڑھے جاتے ہیں نہ یہ بلند آواز سے پڑھا جائے۔ لیکن پہلا قول یہ ہے کہ آمین بلند آواز سے کہی جائے۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا بھی یہی مذہب ہے اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی۔ دوسری روایت کے اعتبار سے یہی مذہب ہے۔ اور اس کی دلیل وہی حدیث ہے جو پہلے بیان ہو چکی کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی۔ ہمارے یہاں پر ایک تیسرا قول بھی ہے کہ اگر مسجد چھوٹی ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین نہ کہیں اس لئے کہ وہ امام کی قرأت سنتے ہیں اور اگر بڑی ہو تو اونچی آواز سے آمین کہیں تاکہ مسجد کے کونے کونے میں آمین پہنچ جائے۔ واللہ اعلم۔ (صحیح مسئلہ یہ ہے کہ جن نمازوں میں اونچی آواز سے قرأت پڑھی جاتی ہے‘ ان میں اونچی آواز سے آمین کہنی چاہئے۔ خواہ مقتدی ہو خواہ امام ہو خواہ منفرد۔ مترجم)- مسند احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس یہودیوں کا ذکر ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ ہماری تین چیزوں پر یہودیوں کو اتنا بڑا حسد ہے کہ کسی اور چیز پر نہیں۔ ایک تو جمعہ کو اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت کی اور یہ بہک گئے‘ دوسرے قبلہ‘ تیسرے ہمارا امام کے پیچھے آمین کہنا۔ ابن ماجہ کی حدیث میں یوں ہے کہ یہودیوں کو سلام پر اور آمین پر جتنی چڑ ہے‘ اتنی کسی اور چیز پر نہیں۔‚ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت میں ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تمہارا جس قدر حسد یہودی آمین پر کرتے ہیں اس قدر حسد اور امر پر نہیں کرتے۔ تم بھی آمین بکثرت کہا کرو۔ اس کی اسناد میں طلحہ بن عمرو راوی ضعیف ہیں۔ ابن مردویہ میں بروایت حضرت ابو ہریرہؓ مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا‘ آمین اللہ تعالیٰ کی مہر ہے اپنے مومن بندوں پر۔ حضرت انسؓ والی حدیث میں ہے کہ نماز میں آمین کہنی اور دعا پر آمین کہنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے عطا کی گئی ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی۔ ہاں اتنا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی ایک خاص دعا پر حضرت ہارون علیہ السلام آمین کہتے تھے۔ تم اپنی دعائوں کو آمین پر ختم کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے حق میں قبول فرمایا کرے گا۔ اس حدیث کو پیش نظر رکھ کر قرآن کریم کے ان الفاظ کو دیکھئے جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَالخ„ ہے یعنی الٰہی تونے فرعون اور فرعونیوں کو دنیا کی زینت اور مال دنیا کی زندگانی میں عطا فرمایا ہے جس سے وہ تیری راہ سے دوسروں کو بہکار ہے ہیں۔ اللہ ان کے مال برباد کر اور ان کے دل سخت کر‘ یہ نہ ایمان لائیں جب تک درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں‘ یہ ایمان نہ لائیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کی قبولیت کا اعلان ان الفاظ میں ہوتا ہے قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا الخ…یعنی تم دونوں کی دعا قبول کی گئی۔ تم مضبوط رہو اور بے علموں کی راہ نہ جائو۔ دعا صرف حضرت موسیٰ ؑ کرتے تھے اور حضرت ہارون صرف آمین کہتے تھے لیکن قرآن نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی۔ اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ جو شخص کسی دعا پر آمین کہے‘ وہ گویا خود وہ دعا کر رہا ہے۔ اب اس استدلال کو سامنے رکھ کر وہ قیاس کرتے ہیں کہ مقتدی قرأت نہ کرے‘ اس لئے کہ اس کا سورۂ فاتحہ کے بعد آمین کہنا پڑھنے کے قائم مقام ہے اور اس حدیث کو بھی دلیل میں لاتے ہیں کہ جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قرأت اس کی قرأت ہے (مسند احمد) حضرت بلالؓ کہا کرتے تھے کہ حضورؐ آمین میں مجھ سے سبقت نہ کیا کیجئے۔ اس کھینچا تانی سے مقتدی پر جہری نمازوں میں الحمد کا نہ پڑھنا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ (یہ یاد رہے کہ اس کی مفصل بحث پہلے گذر چکی ہے) حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب امام غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ کہہ کر آمین کہتا ہے‘ آسمان والوں کی آمین زمین والوں کی آمین سے مل جاتی ہے اللہ تعالیٰ بندے کے تمام پہلے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ آمین نہ کہنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ایک قوم کے ساتھ مل کر غزوہ کرے‘ غالب آئے۔ مال غنیمت جمع کرے‘ اب قرعہ ڈال کر حصہ لینے لگے تو اس شخص کے نام قرعہ نکلے ہی نہیں اور کوئی حصہ نہ ملے وہ کہے’ یہ کیوں‘‘؟ تو جواب ملے کہ تیرے آمین نہ کہنے کی وجہ سے۔ اس مبارک سورت کے فضائل کا بیان: ٭٭ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’سورۂ بقرہ قرآن کی کوہان ہے اور اس کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ اس کی ایک ایک آیت کے ساتھ اسی اسی (۸۰)فرشتے نازل ہوتے تھے اور بالخصوص آیت الکرسی تو خاص عرش تلے نازل ہوئی اور اس سورت میں شامل کی گئی‘‘۔ سورۂ یٰسین قرآن کا دل ہے۔ جو شخص اسے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور آخرت طلبی کے لئے پڑھے‘ اسے بخش دیا جاتا ہے۔ اس سورت کو مرنے والوں کے سامنے پڑھا کرو‘‘ (مسند احمد ) اس حدیث کی سند میں ایک جگہ عن رجل ہے تو یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس سے مراد کون ہے؟ لیکن مسند احمد ہی کی دوسری روایت میں اس کا نام ابو عثمان آیا ہے‘‚یہ حدیث اسی طرح ابو دائود و نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے- ترمذی کی ایک ضعیف سند والی حدیث ہے کہ ہر چیز کی ایک بلندی ہوتی ہے اور قرآن پاک کی بلندی سورۂ بقرہ ہے۔ اس سورت میں ایک آیت ہے جو تمام آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت’ آیت الکرسی‘‘ ہے-„ مسند احمد ‘صحیح مسلم‘ ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بنائو۔ جس گھر میں سورۂ بقرہ پڑھی جائے‘ وہاں شیطان داخل نہیں ہو سکتا-… امام ترمذیؒ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جس گھر میں سورۂ بقرہ پڑھی جائے‘ وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ اس حدیث کے ایک راوی کو امام یحییٰ بن معین ؒتوثقہ بتلاتے ہیں لیکن امام احمدؒ وغیرہ ان کی حدیث کو منکر کہتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے۔ اسے نسا ئی ؒنے عمل ا لیوم واللیلہ میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ ابن مردویہ میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا‘ میں تم میں سے کسی کو ایسا نہ پائوں کہ وہ پیر پر پیر چڑھائے پڑھتا چلا جائے لیکن سورۂ بقرہ نہ پڑھے۔ سنو ! جس گھر میں یہ مبارک سورت پڑھی جاتی ہے‘ وہاں سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے‘ سب گھروں میں بدترین اور ذلیل ترین گھر وہ ہے جس میں کتاب اللہ کی تلاوت نہ کی جائے‘ امام نسائی ؒنے عمل الیوم واللیلہ میں بھی اسے وارد کیا ہے مسند دارمی میں حضرت ابن مسعود ؓسے روایت ہے کہ جس گھر میں سورۂ بقرہ پڑھی جائے اس گھر سے شیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ ہر چیز کی اونچائی ہوتی ہے اور قرآن کی اونچائی سورۂ بقرہ ہے۔ ہر چیز کا ماحصل ہوتا ہے اور قرآن کا ماحصل مفصل سورتیں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ جو شخص سورۂ بقرہ کی پہلی چار آیتیں اور آیۃ الکرسی اور دو آیتیں اس کے بعد کی اور تین آیتیں سب سے آخر کی‘ یہ سب دس آیتیں رات کے وقت پڑھ لے‘ اس گھر میں شیطان اس رات نہیں جا سکتا اور اسے اور اس کے گھر والوں کو اس دن شیطان یا کوئی اور بری چیز ستا نہیں سکتی۔ یہ آیتیں مجنون پر پڑھی جائیں تو اس کا دیوانہ پن بھی دور ہو جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ’جس طرح ہر چیز کی بلندی ہوتی ہے‘ قرآن کی بلندی سورۂ بقرہ ہے۔ جو شخص رات کے وقت اسے اپنے گھر میں پڑھے‘ تین راتوں تک شیطان اس گھر میں نہیں جا سکتا اور دن کو اگر گھر میں پڑھ لے تو تین دن تک شیطان اس گھر میں قدم نہیں رکھ سکتا۔‘‘ (طبرانی ۔ ابن حبان ۔ ابن مردویہ) ترمذی ۔ نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ حضورؐ نے ایک چھوٹا سا لشکر ایک جگہ بھیجا اور اس کی سرداری آپ نے انہیں دی جنہوں نے فرمایا تھا کہ مجھے سورۂ بقرہ یاد ہے۔ اس وقت ایک شریف شخص نے کہا‘ میں بھی اسے یاد کر لیتا لیکن ڈرتا ہوںکہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس پر عمل نہ کر سکوں۔ حضورؐ نے فرمایا‘ قرآن سیکھو ‘ قرآن پڑھو جو شخص اسے سیکھتا ہے‘ پڑھتا ہے‘ پھر اس پر عمل بھی کرتا ہے‘ اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بھرا ہوا برتن جس کی خوشبو ہر طرف مہک رہی ہے۔ اسے سیکھ کرسو جانے والے کی مثال اس برتن کی سی ہے جس میں مشک تو بھرا ہوا ہے لیکن اوپر سے منہ بند کر دیا گیا ہے۔ (امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں اور مرسل روایت بھی ہے) واللہ اعلم۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ رات کو سورۂ بقرہ کی تلاوت شروع کی‘ ان کا گھوڑا جو ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا‘ اس نے اچھلنا ‘کودنا اور بدکنا شروع کیا۔ آپ نے قرأت چھوڑدی۔ گھوڑا بھی سیدھا ہو گیا۔ آپؐ نے پھر پڑھنا شروع کیا۔ گھوڑے نے بھی پھر بدکنا شروع کیا۔ آپ نے پھر پڑھنا موقوف کیا‘ گھوڑا بھی ٹھیک ٹھاک ہو گیا۔ تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا۔ چونکہ ان کے صاحبزادے یحییٰ گھوڑے کے پاس ہی لیٹے ہوئے تھے‘ اس لئے ڈر معلوم ہوا کہ کہیں بچے کو چوٹ نہ آجائے‘ قرآن کا پڑھنا بند کر کے اسے اٹھا لیا۔ آسمان کی طرف دیکھا کہ جانور کے بدکنے کی کیا وجہ ہے؟ صبح حضورؐ کی خدمت میں آکر واقعہ بیان کرنے لگے۔ آپ سنتے جاتے اور فرماتے جاتے ہیں پھر ’اسید پڑھتے چلے جائو ‘‘حضرت اسید نے کہا حضور تیسری مرتبہ کے بعد تو یحییٰ کی وجہ سے میں نے پڑھنا بالکل بند کر دیا۔ اب جو نگاہ اٹھی تو دیکھتا ہوں کہ ایک نورانی چیز سایہ دار ابر کی طرح ہے اور اس میں چراغوں کی طرح کی روشنی ہے بس میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اوپر کو اٹھ گئی۔ آپؐ نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا چیز تھی ؟ یہ فرشتے جو تمہاری آواز کو سن کر قریب آگئے تھے۔ اگر تم پڑھنا موقوف نہ کرتے تو وہ صبح تک یونہی رہتے اور ہر شخص انہیں دیکھ لیتا‘ کسی سے نہ چھپتے۔ ‚یہ حدیث کئی کتابوں میں کئی سندوں کے ساتھ موجود ہے۔ واللہ اعلم۔ اس کے قریب قریب واقعہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ گذشتہ رات ہم نے دیکھا‘ ساری رات حضرت ثابت کا گھر نور کا بقعہ بنا رہا اور چمکدار روشن چراغوں سے جگمگاتا رہا۔ حضورؐ نے فرمایا شاید انہوں نے رات کو سورۂ بقرہ پڑھی ہو گی۔ جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا’ سچ ہے۔ رات کو میں سورۂ بقرہ کی تلاوت میں مشغول تھا‘‘۔ اس کی اسناد تو بہت عمدہ ہے مگر اس میں ابہام ہے اور یہ مرسل بھی ہے۔ واللہ اعلم۔ سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران کی فضیلت: ٭٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں’ سورۂ بقرہ سیکھو‘ اس کو حاصل کرنا برکت ہے اور اس کا چھوڑنا حسرت ہے‘ جادوگر اس کی طاقت نہیں رکھتے‘‘پھر کچھ دیر چپ رہنے کے بعد فرمایا’ سورۂ بقرۂ اور سورۂ آل عمران سیکھو‘ یہ دونوں نورانی سورتیں ہیں‘ اپنے پڑھنے والے پر سائبان یا بادل یا پرندوں کے جھنڈ کی طرح قیامت کے روز سایہ کریں گی‘ قرآن پڑھنے والا جب قبر سے اٹھے گا تو دیکھے گا کہ ایک نوجوان نورانی چہرے والا شخص اس کے پاس کھڑا ہوا کہتا ہے کہ کیا آپ مجھے جانتے ہیں؟ یہ کہے گا نہیں تو وہ جواب دے گا کہ میں قرآن ہوں جس نے دن کو تجھے بھوکا پیاسا رکھا تھا اور راتوں کو بستر سے دور بیدار رکھا تھا‘ ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہے لیکن آج سب تجارتیں تیرے پیچھے ہیں‘ اب اس کے رہنے کے لئے سلطنت داہنے ہاتھ میں دی جائے گی اور ہمیشہ کے فائدے اس کے بائیں ہاتھ میں‘ اس کے سر پر وقار و عزت کا تاج رکھا جائے گا۔ اس کے ماں باپ کو دو ایسے عمدہ قیمتی حلے پہنائے جائیں گے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت کے سامنے ہیچ ہو گی‘ وہ حیران ہو کر کہیں گے کہ آخر اس رحم و کرم اور اس انعام و اکرام کی کیا وجہ ہے؟ تو انہیں جواب دیا جائے گا کہ تمہارے بچے کے قرآن حفظ کرنے کی وجہ سے تم پر یہ نعمت انعام کی گئی ۔ پھر اسے کہا جائے گا‘ پڑھتا جا اور جنت کے درجے چڑھتا جا ‘چنانچہ وہ پڑھتا جائے گا اور درجے چڑھتا جائے گا خواہ تر تیل سے پڑھے یا بے ترتیل۔ ابن ماجہ میں بھی اس حدیث کا بعض حصہ مروی ہے۔‚ اس کی اسناد حسن ہے اور شرط مسلم پر ہے۔ اس کے راوی بشر ‘ابن ماجہ سے امام مسلمؒ بھی روایت لیتے ہیں اور امام ابن معینؒ اسے ثقہ کہتے ہیں۔ نسائی ؒ کا قول ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں امام احمد اسے منکر الحدیث بتلاتے ہیں اور فرماتے ہیں میں نے تلاش کی تو دیکھا کہ وہ عجب عجب حدیثیں لاتا ہے۔ امام بخاریؒ فرماتے ہیں‘ اس کی بعض احادیث سے اختلاف کیا جاتا ہے۔ ابو حاتم رازی ؒکا فیصلہ ہے کہ اس کی حدیثیں لکھی جاتی ہیں لیکن ان سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔ ابن عدی کا قول ہے کہ ان کی ایسی روایتیں بھی ہیں جن کی متابعت نہیں کی جاتی۔ دارقطنیؒ فرماتے ہیں‘ یہ قوی نہیں ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس کی اس روایت کے بعض مضمون دوسری سندوں سے بھی آئے ہیں۔ مسند احمد میں ہے۔ قرآن پڑھا کرو‘ یہ اپنے پڑھنے والوں کی قیامت کے دن شفاعت کرے گا۔ دو نورانی سورتوں بقرہ اور آل عمران کو پڑھتے رہا کرو۔ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی کہ گویا یہ دو سائبان ہیں یا دو ابر ہیں یا پر کھولے پرندوں کی دو جماعتیں ہیں۔ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گی۔ پھر حضورؐ نے فرمایا’ سورۂ بقرہ پڑھا کرو۔ اس کا پڑھنا برکت ہے اور چھوڑنا حسرت ہے۔ اس کی طاقت باطل والوں کو نہیں‘‘ صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے۔„ مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے ’قرآن اور قرآن پڑھنے والوں کو قیامت کے دن بلوایا جائے گا۔ آگے آگے سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران ہوں گی۔ بادل کی طرح یا سائے اور سائبان کی طرح یا پر کھولے پرندوں کے جھرمٹ کی طرح‘ یہ دونوں پروردگار سے ڈٹ کر سفارش کریں گی‘‘۔…مسلم اور ترمذیؒ میں بھی یہ حدیث ہے۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں۔ ایک شخص نے اپنی نماز میں سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھی اس کے فارغ ہونے کے بعد حضرت کعبؓ نے فرمایا اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ ان میں اللہ کا وہ نام ہے کہ اس نام کے ساتھ جب کبھی اسے پکارا جائے‘ وہ قبول فرماتا ہے۔ اب اس شخص نے حضرت کعب ؓسے عرض کی کہ مجھے بتائیے ‘ وہ نام کونسا ہے ؟ حضرت کعب ؓنے اس سے انکار کیا اور فرمایا‘ اگر میں بتا دوں تو خوف ہے کہ کہیں تو اس نام کی برکت سے ایسی دعا نہ مانگ لے جو میری اور تیری ہلاکت کا سبب بن جائے۔ حضرت ابو امامہؓ فرماتے ہیں تمہارے بھائی کو خواب میں دکھلایا گیا کہ گویا لوگ ایک بلند و بالا پہاڑ پر چڑھ رہے ہیں۔ پہاڑ کی چوٹی پر دو سرسبز درخت ہیں اور ان میں سے آوازیں آرہی ہیں کہ کیا تم میں کوئی سورۂ بقرہ کا پڑھنے والا ہے؟ کیا تم میں سے کوئی سورۂ آل عمران کا پڑھنے والا ہے؟ جب کوئی کہتا ہے کہ’ ہاں‘‘ تو وہ دونوں درخت اپنے پھلوں سمیت اس کی طرف جھک جاتے ہیں اور یہ اس کی شاخوں پر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اسے اوپر اٹھا لیتے ہیں۔ حضرت ام درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں کہ ایک قران پڑھے ہوئے شخص نے اپنے پڑوسی کو مار ڈالا۔ پھر قصاص میں وہ بھی مارا گیا۔ پس قرآن کریم ایک ایک سورت ہو ہو کر الگ ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ اس کے پاس سورہ آل عمران اور سورۂ بقرہ رہ گئیں۔ ایک جمعہ کے بعد سورۂ ال عمران چلی گئی۔ پھر ایک جمعہ گذرا تو آواز آئی کہ میری باتیں نہیں بدلا کرتیں اور میں اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا جنانچہ یہ مبارک سورت یعنی سورۂ بقرہ بھی اس سے الگ ہو گئی۔ مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں سورتیں اس کی طرف سے بلائوں اور عذابوں کی آڑ بنی رہیں اور اس کی قبر میں اس کی دلجوئی کرتی رہیں اور سب سے آخر اس کے گناہوں کی زیادتی کے سبب ان کی سفارش نہ چلی۔ یزید بن اسود جرشی ؒ کہتے ہیں کہ ان دونوں سورتوں کو دن میں پڑھنے والا دن بھر میں نفاق سے بری رہتا ہے اور رات کو پڑھنے والا ساری رات نفاق سے بری رہتا ہے۔ خود حضرت یزید ؒاپنے معمولی وظیفہ قرآن کے علاوہ ان دونوں سورتوں کو صبح شام پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں‘ جو شخص ان دونوں سورتوں کو رات پڑھتا رہے گا‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ فرمانبرداروں میں شمار ہو گا۔ اس کی سند منقطع ہے۔ صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں سورتوں کو ایک رکعت میں پڑھا۔ سات لمبی سورتوں کی فضیلت: ٭٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں‘ مجھ کو سات لمبی سورتیں توریت کی جگہ دی گئی ہیں اور انجیل کی جگہ مجھ کو دو سو آیتوں والی سورتیں ملی ہیں اور زبور کے قائم مقام مجھ کو دو سو سے کم آیتوں والی سورتیں دی گئی ہیں اور پھر مجھے فضیلت میں خصوصاً سورۂ ق سے لے کر آخر تک کی سورتیں ملی ہیں۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی سعید بن ابو بشیر کے بارہ میں اختلاف ہے۔ ابو عبید نے اسے دوسری سند سے بھی نقل کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ ایک اور حدیث میں ہے جو شخص ان سات سورتوں کو حاصل کر لے وہ بہت بڑا عالم ہے۔ یہ روایت بھی غریب ہے۔ مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے‚ ایک مرتبہ حضورؐ نے ایک لشکر بھیجا اور ان کا امیر انہیں بنایا جنہیں سورۂ بقرہ یاد تھی حالانکہ وہ ان سب میں چھوٹی عمر کے تھے۔ حضرت سعید بن جبیر تو وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ„کی تفسیر میں بھی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہی سات سورتیں ہیں‘ سورۂ بقرہ‘ سورۂ آل عمران‘ سورۂ نساء‘ سورۂ مائدہ‘ سورۂ انعام‘ سورۂ اعراف اور سورۂ یونس۔ حضرت مجاہد مکحول‘ عطیہ بن قیس‘ ابو محمد فارسی‘ شداد بن اوس‘ یحییٰ بن حارث ذماری سے بھی یہی منقول ہے۔ مقام نزول: ٭٭ سورۂ بقرہ ساری کی ساری مدینہ شریف میں نازل ہوئی ہے اور شروع شروع جو سورتیں نازل ہوئیں‘ ان میں سے ایک یہ بھی ہے البتہ اس کی ایک آیت وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ یہ سب سے آخر نازل شدہ بتلائی جاتی ہے یعنی قرآن کریم میں سب سے آخر یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ممکن ہے کہ نازل بعد میں ہوئی ہو لیکن اسی میں ہے۔ اور اسی طرح سود کی حرمت کی آیتیں بھی آخر میںنازل ہوئی ہیں۔ حضرت خالد بن معدان سورۂ بقرہ کو فسطاط القرآن یعنی قرآن کا خیمہ کہا کرتے تھے۔ بعض علماء کا فرمان ہے کہ اس میں ایک ہزار خبریں ہیں اور ایک ہزار حکم ہیں اور ایک ہزار کاموں سے ممانعت ہے‘ اس کی آیتیں دو سو ستاسی ہیں۔ اس کے کلمات چھ ہزار دو سو اکیس ہیں۔ اس کے حروف ساڑھے پچیس ہزار ہیں۔ واللہ اعلم۔ ابن عباس فرماتے ہیں‘ یہ سورت مدنی ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ اور بہت سے ائمہ علماء اور مفسرین سے بھی بلااختلاف یہی مروی ہے۔‚ ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے کہ سورۂ بقرہ‘ سورۂ آل عمران‘ سورۂ النساء وغیرہ نہ کہا کرو بلکہ یوں کہو کہ وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے‘ وہ سورت جس میں آل عمران کا بیان ہے اور اسی طرح قرآن کی سب سورتوں کے نام لیا کرو۔ لیکن یہ حدیث غریب ہے بلکہ اس کا فرمان رسولؐ ہونا ہی صحیح نہیں۔ اس کے راوی عیسیٰ بن میمون ابو سلمہ خواص ضعیف ہیں۔ ان کی روایت سے سند نہیں لی جا سکتی۔ اس کے برخلاف بخاری و مسلم میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بطن وادی سے شیطان پر کنکر پھینکے۔ بیت اللہ ان کی بائیں جانب تھا اور منیٰ دائیں طرف۔ اور فرمایا اسی جگہ سے کنکر پھینکے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن پر سورۂ بقرہ اتری ہے۔ گو اس حدیث سے صاف ثابت ہو گیا ہے کہ سورۂ بقرہ وغیرہ کہنا جائز ہے۔ لیکن مزید سنئے۔ ابن مردویہ میں ہے کہ جب آنحضرتؐ نے اپنے اصحاب میں کچھ سستی دیکھی تو انہیں یا اصحاب سورۂ بقرہ کہہ کر پکارا۔ غالباً یہ غزوئہ حنین والے دن کا ذکر ہے جب لشکر کے قدم اکھڑ گئے تھے تو حضورؐ کے حکم سے حضرت عباس ؓنے انہیں درخت والو یعنی اے بیعت الرضوان کرنے والو اور اے سورۂ بقرہ والو کہہ کر پکارا تھا تاکہ ان میں خوشی اور دلیری پیدا ہو۔ چنانچہ اس آواز کے ساتھ ہی صحابہؓ ہر طرف سے دوڑ پڑے۔ مسیلمہ جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا‘ اس کے ساتھ لڑنے کے وقت بھی جب قبیلہ بنو حنفیہ کی چیرہ دستیوں نے پریشان کر دیا اور قدم ڈگمگا گئے تو صحابہؓ نے اسی طرح لوگوں کو پکارا‘ یا اصحاب سورۂ البقرہ‘ اے سورۂ بقرہ والو‘ اس آواز پر سب کے سب جمع ہو گئے اور جم کر لڑے یہاں تک کہ ان مرتدوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے لشکر کو فتح دی اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ کے سب صحابہ سے خوش ہو۔
Surat ul Fatiha ( Fee Zilal il Quran – Urdu) صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ ٧
صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ ٧
ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا
جو معتوب نہیں ہوئے جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں
Surat No. 1 Ayat NO. 7
ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا ، جو معتوب نہیں ہوئے اور جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت علاء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان پورا پورا تقسیم کردیا ہے ۔ نصف اپنے لئے اور نصف بندے کے لئے اور میرے بندے کے لئے وہ سب کچھ ہے جو وہ طلب کرے ۔ جب بندہ کہتا ہے الحمد للہ رب العالمین تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد اور تعریف کی اور جب بندہ الرحمن الرحیم ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثناء کی جب وہ مالک یوم الدین پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بڑائی بیان کی ۔ اور جب وہ کہتا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے کے لئے وہ کچھ ہے جو اس نے طلب کیا اور جب وہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ…….. وَلا الضَّالِّينَ تک پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے بندے کے لئے ہے اور اس کے لئے وہ کچھ ہے جو اس نے مانگا۔ اس بیان اور تفسیر کی روشنی میں وہ حکمت کھل کر سامنے آجاتی ہے جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اس سورت کو کم ازکم سترہ مرتبہ نماز کے دوران پڑھنا فرض قرار دیا ہے اور اگر کوئی اس سے زیادہ پڑھتا ہے تو یہ اس سے بھی زیادہ مرتبہ دہرائی جاتی ہے۔
Tadabbar ul Quran Surat ul Fatiha in Urdu صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ ٧
صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ ٱلْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ ٧
ان لوگوں کے رستے کی ، جن پر تونے اپنا فضل فرمایا ،
جو نہ مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ
| صراط الذین انعمت علیہم الایۃ | ۔ آدمی جس چیز سے جتنا ہی گہرا لگاؤ رکھتا ہے اس کو اسی قدر وضاحت کے ساتھ خود بھی سمجھنا چاہتا ہے اور دوسرے کو بھی سمجھانا چاہتا ہے۔ اس وجہ سے صرف اتنے ہی پر بس نہیں کیا کہ ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت بخش بلکہ اس کی پوری وضاحت بھی کردی ہے اور یہ وضاحت مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ رستہ ان لوگوں کا ہو جن پر تیرا انعام ہوا ہے اور منفی پہلو یہ ہے کہ جو نہ تو مغضوب ہوئے ہیں اور نہ گمراہ۔ اس وضاحت کے بعد مدعا اس طرح آئینہ ہو کر سامنے آگیا ہے کہ کسی اشتباہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ اس ساری وضاحت کی ضرورت اس وجہ سے نہیں تھی کہ (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ کو دعا کا مدعا سمجھنے میں کوئی غلط فہمی پیش آنے کا امکان تھا، بلکہ صرف یہ ہے کہ طالب اپنے مطلوب حقیقی کی طلب کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے اپنی بیزاری کا اظہار بھی کر رہا ہے جنہوں نے اس محبوب و مطلوب سے منہ موڑا یا اس سے بھٹک گئے نیز اپنے لیے استقامت واستواری کا بھی طلب گار ہے کہ اس راستہ کو پاجانے کے بعد اس پر قائم رہنا نصیب ہو، ان لوگوں کا حشر نہ ہو جن کو یہ رستہ ملنے کو تو ملا لیکن وہ اس کو پالینے کے بعد یا تو دیدہ دانستہ اس سے منحرف ہوجانے کے سبب سے خدا کے غضب میں مبتلا ہوئے، یا اپنی بدعت پسندیوں کی وجہ سے اس کو پا کر اس سے محروم ہوگئے۔ اس آیت میں تین گروہوں کا ذکر ہے۔ ایک منعم علیہم۔ دوسرا مغضوب علیہم۔ تیسرا ضالین۔ مختصرا ان تینوں گروہوں کی خصوصیات بھی معلوم کرلینی چاہئیں۔ | انعمت علیہم | میں نعمت سے مقصود در اصل ہدایت و شریعت کی نعمت ہے جس سے انسان دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کا رستہ معلوم کرتا ہے۔ فعل انعام یہاں اپنے کامل اور حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد در حقیقت وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے شریعت کی نعمت عطا فرمائی اور انہوں نے دل و جان سے اس کو قبول کیا، اس نعمت کے دیے جانے پر وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہے، اس کی خود بھی قدر کی اور دوسروں کو بھی اس کی قدر کرنے پر ابھارا، اس کے تحفظ کے لیے انہوں نے اپنی قوتیں اور قابلیتیں بھی صرف کیں، مال بھی قربان کیے اور اگر ضرورت پیش آئی تو اس کی راہ میں جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ یہاں بات اجمال کے ساتھ کہی گئی ہے اس وجہ سے واضح نہیں ہوتا کہ یہ اشارہ کس گروہ کی طرف ہے لیکن ایک دوسری آیت میں اس انعام یافتہ گروہ کی وضاحت ہوگئی ہے۔ | فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین | (نساء :69) ۔ پس یہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا انعام فرمایا انبیاء، صدیقین، شہداء، اور صالحین کے ساتھ۔ | مغضوب علیہم | میں فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح براہ راست نہیں ہے جس طرح انعام کے ذکر میں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سوء ادب سے احتراز ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انعام ہمیشہ اور ہر حال میں بندہ پر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، برعکس اس کے خدا کے غضب کا مستحق بندہ اپنے اعمال کے سبب سے خود بنتا ہے۔ | مغضوب علیہم | سے مراد دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کی نعمت نازل فرمائی لیکن انہوں نے اپنی سرکشی کے سبب سے نہ صرف یہ کہ اس کو قبول نہیں کیا، بلکہ اس کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور جن لوگوں نے اس کو ان کے سامنے پیش کیا ان کی بیخ کنی اور قتل کے درپے ہوئے جس کی پاداش میں ان پر خدا کا غضب نازل ہو اور وہ ہلاک کردئیے گئے۔ دوسرے وہ لوگ جنہوں نے قبول تو کیا لیکن دل کی آمادگی کے ساتھ نہیں قبول کیا بلکہ مارے باندھے قبول کیا، پھر بہت جلد شہواتِ نفس میں پڑ کر انہوں نے اس کے کچھ حصہ کو ضائع کردیا، کچھ حصہ میں کتر بیونت کر کے اس کو اپنی خواہشات کے مطابق بنا لیا اور جن لوگوں نے ان کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی یا ان کو صحیح راستہ پر لانا چاہا انہوں نے ان میں سے بعض کو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل کردیا۔ پچھلی امتوں میں اس کی سب سے واضح مثال یہودی ہیں۔ چناچہ ان کے معتوب و مغضوب ہونے کا ذکر قرآن میں تصریح کے ساتھ ہوا بھی ہے۔ مثلاً من لعنہ اللہ و غضب علیہ وجعل منہم القردۃ والخنازیر | (مائدہ :60) ۔ | وضربت علیہم الذلۃ والمسکنۃ وباء و بغضب من اللہ | (بقرہ :61) جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر اس کا غضب ہوا اور جن کے اندر سے اس نے بندر اور خنزیر بنائے۔ اور ان کے اوپر ذلت و مسکنت تھوپ دی گئی اور وہ خدا کا غضب لے کر پلٹے۔ | ضالین | سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دین میں غلو کیا، جنہوں نے اپنے پیغمبر کا رتبہ اتنا بڑھایا کہ اس کو خدا بنا کر رکھ دیا، جو صرف انہی عبادتوں اور طاعتوں پر قانع نہیں ہوئے جو اللہ اور اللہ کے رسول نے مقرر کی تھیں بلکہ اپنے جی سے رہبانیت کا ایک پورا نظام کھڑا کردیا، جنہوں نے اپنے اگلوں کی ایجاد کی ہوئی بدعتوں اور گمراہیوں کی آنکھ بند کر کے پیروی کی اور اس طرح صراط مستقیم سے ہٹ کر گمراہی کی پگڈنڈیوں پر نکل گئے۔ پچھلی امتوں میں سے اس کی نہایت واضح مثال نصاریٰ ہیں۔ چناچہ قرآن مجید نے انہی وجوہ کی بنا پر جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، ان کو گمراہ اور گمراہ کرنے والے قرار دیا ہے۔ مثلاً | یا اھل الکتاب لاتغلو فی دینکم غیر الحق ولا تتبعوا اھواء قوم قد ضلوا من قبل واضلوا کثیرا وضلوا عن سواء السبیل | (مائدہ : 77) ۔ کہہ دو اے اہل کتاب تم اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشوں (بدعتوں) کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے گمراہ چلے آرہے ہیں اور جنہوں نے بہتوں کو خدا کے رستہ سے بھٹکایا اور جو خود بھی اس کے رستہ سے بھٹکے۔ (2) ۔ سورة کا استدلالی پہلو :۔ یہ سورة چونکہ دعا کے اسلوب میں ہے اس وجہ سے اس میں جن باتوں کا بندے کی طرف سے اقرار اور پھر جس بات کی درخواست ہے، ان میں سے ہر چیز نہایت مضبوط عقلی اور فطری دلائل پر قائم ہے۔:: یہ نہیں ہے کہ ایک دعا تو ہماری زبان سے کہلا دی گئی ہو، جس کے اندر ہماری طرف سے نہایت اہم اعترافات بھی موجود ہوں لیکن نہ تو ان اعترافات ہی کے لیے کوئی عقلی بنیاد ہو اور نہ اس درخواست ہی کے لیے۔ اس دعا کے اندر استدلال کے جو پہلو ہیں یہاں ہم اختصار کے ساتھ ان کو واضح کرتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلے اس امر کا اقرار ہے کہ شکر کا حقیقی سزاوار اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس اقرار کی بنیاد خدا کی پروردگاری، اس کی رحمانیت، اس کی رحیمیت اور اس کے عدل کی ان نشانیوں کے مشاہدہ پر ہے جو ہمارے اندر بھی موجود ہیں اور جو اس کائنات کے بھی ہر گوشہ میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ آدمی کا بچہ ہو یا کسی حقیر سے حقیر حیوان کا، ابھی وہ دنیا میں قدم بھی نہیں رکھتا ہے کہ اس کی پرورش کا سامان پہلے سے بالکل تیار موجود ہوتا ہے۔ اس سامان پرورش کی تیاری کا عالم یہ ہے کہ معلوم ہوتا ہے اس کائنات کے تمام چھوٹے بڑے عناصر رات دن اسی کی فراہمی اور اسی کے اہتمام میں سرگرم ہیں۔ سورج بھی اسی کے لیے سرگرم ہے، چاند بھی اسی کے لیے مصروفِ کار ہے، ابر بھی اسی کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا ہے اور ہوا بھی ہر آن اسی کے لیے گردش میں ہے۔ پھر پرورش اور تربیت کا یہ اہتمام ہماری زندگی کے کسی ایک ہی گوشہ میں نہیں پایا جا رہا ہے، بلکہ غور کیجیے تو نظر آئے گا کہ یہ زندگی کے ہر گوشہ میں موجود ہے۔ ہمارے ظاہر کی بھی پرورش ہو رہی ہے، ہمارا باطن بھی زیر تربیت ہے، ہمارا جسم بھی پل رہا ہے، ہماری عقل کو بھی غذا مل رہی ہے، ہماری جسمانی قوتیں اور قابلیتیں بھی پروان چڑھ رہی ہیں اور ہماری روحانی صلاحیتوں کو بھی بالیدگی حاصل ہو رہی ہے، غرض ہماری زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو نظر انداز ہو رہا ہو۔ اس تمام اہتمام و انتظام سے پرورش کرنے والے کی کوئی ذاتی غرض ہے ؟ کیا وہ اپنی سلطنت کے قیام و بقا کے لیے ہمارا محتاج ہے کہ وہ اس فیاضی کے ساتھ ہمارے اوپر خرچ کرے ؟ کیا جس طرح بھیڑوں کے کسی گلے کا مالک یہ چاہتا ہے کہ اس کی بھیڑیں فربہ رہیں تاکہ وہ ان سے زیادہ سے نفع کما سکے اسی طرح کی کوئی غرض اس جہان کے رب کے سامنے بھی ہے جس کے لیے وہ ہمیں کھلا پلا اور ہماری دیکھ بھال کر رہا ہے ؟ انسان جب ان سوالوں پر غور کرتا ہے تو اسے صاف نظر آتا ہے کہ اس طرح کی کسی غرض کا کوئی ادنی شائبہ یہاں دور دور تک فرض بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جس ذات کی قدرت و حکمت کا ادنی کرشمہ یہ آسمان و زمین میں وہ بھلا ہم جیسے حقیر بھنگوں کی محتاج کیا ہوسکتی ہے ؟ اچھا، اگر یہ نہیں ہے تو کیا اس کائنات کے خالق ومالک پر ہمارا کوئی حق ہے، جو پہلے سے قائم ہے اور جس کے سبب سے وہ مجبور ہے کہ ہمارے لیے یہ کچھ اہتمام وہ کرے، ظاہر ہے کہ اس طرح کی کوئی چیز بھی فرض نہیں کی جاسکتی۔ جن کو وجود کی نعمت ملی ہی محض اس کے لطف و کرم کی بدولت ہو وہ بھلا اس پر اپنا کوئی حق قائم کرنے کے قابل کس طرح ہو سکتے ہیں ؟ اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے اور صاف ظاہر ہے کہ نہیں ہے تو اس کی اس تمام پروردگاری کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ رحمان اور رحیم ہے یہ اس کی رحمانیت کا جوش ہے کہ اس نے ہم کو وجود بخشا اور یہ اس کی رحیمیت کا فیض ہے کہ وہ برابر ہماری دیکھ بھال کر رہا ہے۔ انسان جب خدا کی پروردگاری کے اس اہتمام کو دیکھتا ہے تو یہیں سے اس پر علم و معرفت کا ایک اور دروازہ کھلتا ہے۔ یہ دروازہ ایک روز جزا و سزا کی آمد کا دروازہ ہے جس دن تنہا وہی پورے اختیار کے ساتھ انصاف کی کرسی پر بیٹھے گا، اور نافرمانوں کو ان کی نافرمانیوں کی انصاف کے ساتھ سزا دے گا اور نیکوں کو ان کی نیکیوں کا فضل و رحمت کے ساتھ صلہ دے گا۔ خدا کی پروردگاری اور اس کی رحمانیت اور رحیمیت کی نشانیاں ایک روز جزا و سزا کی آمد کو کس طرح لازم کرتی ہیں ؟ اس سوال کا جواب تھوڑی سی وضاحت کا طالب ہے۔ خدا کی پروردگاری سے روز جزا پر استدلال قرآن مجید نے جگہ جگہ اس طرح کیا ہے کہ جس خدا نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا اور آسمان کا شامیانہ تانا، جس نے تمہارے لیے سورج اور چاند جگمگائے، جس نے ابرو ہوا جیسی چیزوں کو تمہاری خدمت میں لگایا، جس نے تمہارے تمام ظاہری اور باطنی، روحانی اور مادی مطالبات کا بہتر سے بہتر جواب مہیا کیا، کیا اس خدا کے متعلق تم یہ گمان کرتے ہو کہ بس اس نے تمہیں یوں ہی پیدا کردیا ہے اور پیدا کرکے بس یوں ہی چھوڑ دے گا، یہ تمام کارخانہ محض کسی کھلنڈرے کا ایک کھیل ہے جس کے پیچھے کوئی غایت و مقصد نہیں ہے ؟ تم ایک شتر بےمہار کی طرح اس سرسبز و شاداب چراگاہ میں بس چرنے کے لیے چھوڑ دئیے گئے ہو، نہ تم پر کوئی ذمہ داری ہے اور نہ تم سے کوئی پرسش ہوگی ؟ اگر تم نے یہ سمجھ رکھا ہے تو نہایت غلط سمجھ رکھا ہے۔ پرورش کا یہ سارا اہتمام پکار پکار کر شہادت دے رہا ہے کہ یہ اہتمام کسی اہم غایت و مقصد کے لیے ہے اور یہ ان لوگوں پر نہایت بھاری ذمہ داریاں عائد کرتا ہے جو بغیر کسی استحقاق کے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایک دن ان ذمہ داریوں کی بابت ایک ایسے شخص سے پرسش ہوگی اور وہی دن فیصلہ کا ہوگا۔ جنہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہوں گی وہ سرخ رو اور فائزالمرام ہوں گے اور جنہوں نے ان کو نظر انداز کیا ہوگا وہ ذلیل اور نامراد ہوں گے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں مختلف اسلوبوں سے بیان ہوا ہے لیکن اختصار کے خیال سے صرف ایک مثال نقل کرتے ہیں | الم نجعل الارض مہدا۔ والجبال اوتادا۔:: وخلقناکم ازواجا۔ وجعلنا نومکم سباتا۔ وجعلنا اللیل لباسا۔ وجعلنا النہار معاشا۔ وبنینا فوقکم سبعا شدادا۔ وجعلنا سراجا وھاجا۔ وانزلنا من المعصرات ماء ثجاجا۔ لنخرج بہ حبا ونباتا۔ و جنت الفافا۔ ان یوم الفصل کان میقاتا | (نبا : 6-17) ۔ کیا ہم نے زمین کو تمہارے لیے گہوارہ نہیں بنایا اور اس میں پہاڑوں کی میخیں نہیں ٹھونکیں ؟ اور ہم نے تم کو جوڑا جوڑا پیدا کیا۔ اور تمہاری نیند کو دفع کلفت بنایا۔:: رات کو تمہارے لیے پردہ پوش بنایا اور دن کو حصول معاش کا وقت ٹھہرایا اور ہم نے تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بلند کیے اور روشن چراغ بنایا اور ہم نے بدلیوں سے دھڑا دھڑ پانی برسایا تاکہ اس سے ہم غلے اور نباتات اگائیں اور گھنے باغ پیدا کریں بیشک فیصلہ کا دن مقرر ہے۔ | بیشک فیصلہ کا دن مقرر ہے | یعنی اوپر جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ جس نے یہ کچھ اہتمام انسان کے لیے کیا ہے وہ انسانوں کو یوں ہی شتر بےمہار کی طرح چھوڑے نہیں رکھے گا بلکہ اس کی نیکی یا بدی کے فیصلہ کے لیے فیصلہ کا ایک دن بھی لائے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رحمان اور رحیم ہونے کا یہ لازمی نتیجہ قرار دیا ہے کہ ایک ایسا دن وہ لائے جس میں اچھوں اور بروں کے درمیان انصاف کرے۔ نیکو کاروں کو ان کی نیکیوں کا صلہ دے، اور بدکاروں کو ان کی برائیوں کی سزا دے۔ ایک رحمان اور رحیم ہستی کے لیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ ظالم اور مظلوم، نیکو کار اور بد، باغی اور وفادار دونوں کے ساتھ ایک ہی طرح کا معاملہ کرے۔ ان کے درمیان ان کے اعمال کی بنا پر کوئی فرق نہ کرے۔ نہ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دے نہ مظلوم کی مظلومیت کا ظالم سے انتقام لے۔ اگر زندگی کا یہ کارخانہ اسی طرح ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد جزا وسزا اور انعام و انتقام کا کوئی دن آتا نہیں ہے تو اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ العیاذ باللہ اس دنیا کے پیدا کرنے والے کی نگاہوں میں متقی اور مجرم دونوں برابر ہیں بلکہ مجرم نسبتاً اچھے ہیں جن کو جرم کرنے اور فساد برپا کرنے کے لیے اس نے بالکل آزاد چھوڑ رکھا ہے۔ یہ چیز بداہۃً غلط اور اس کے رحمان و رحیم ہونے کے بالکل منافی ہے چناچہ اس نے نہایت واضح الفاظ میں اس کی تردید فرمائی۔ مثلاً | افنجعل المسلمین کالمجرمین۔ مالکم کیف تحکمون | (قلم : 36) کیا ہم اطاعت کرنے والوں کو مجرموں کی طرح کردیں گے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ تم کیسا فیصلہ کرتے ہو ؟۔ اور اپنے رحمان اور رحیم ہونے کا یہ لازمی نتیجہ بتایا ہے کہ ایک دن وہ سب کو جمع کر کے انصاف کرے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دے گا۔ چناچہ فرمایا ہے | کتب علی نفسہ الرحمۃ۔ لیجمعنکم الی یوم القیمۃ لا ریب فیہ | (انعام : 12) اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کرلی ہے وہ قیامت تک، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں، تم کو ضرور جمع کر کے رہے گا۔ اس آیت سے صاف واضح ہے کہ قیامت در اصل خدا کی رحمت کا مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے اس وجہ سے وہ فیصلہ کا ایک دن ضرور لائے گا جس میں وہ سب کو اکٹھا کر کے ان کے درمیان انصاف فرمائے گا۔ اور یہ بھی عین اس کی اس رحمت ہی کا تقاضا ہے کہ اس دن کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس کے فیصلوں میں کوئی مداخلت کرسکے اور اپنی سفارشوں سے حق کو باطل یا باطل کو حق بنا سکے بلکہ ہر ایک کے لیے بالکل بےلاگ اور پورا پورا انصاف ہوگا۔ اس سے یہ نکتہ بھی واضح ہوا کہ عدل اور رحمت میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ عدل عین رحمت ہی کا تقاضا ہے۔ جذبہ شکر دین کی بنیاد ہے :۔ ربوبیت، رحمت اور عدل کی ان نشانیوں کے مشاہدہ سے اللہ تعالیٰ کے لیے شکر کا جو بےپایاں جذبہ پیدا ہوتا ہے، یہی جذبہ ہے جو بندہ کو اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی بندگی کرے اور اپنی ہر مشکل میں اسی سے مدد مانگے۔ غور کیجیے تو صاف واضح ہوگا کہ جس طرح یہ جذبہ رحمت و ربوبیت کی نشانیوں کے مشاہدہ کا ایک فطری نتیجہ ہے اسی طرح اس جذبہ سے سرشار ہو کر بندہ کا خدا کی طرف اس کی عبادت کے لیے بڑھنا بھی اس جذبہ کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ انسان کا ہر جذبہ اپنا ایک قدرتی رد عمل رکھتا ہے۔ اس جذبہ کا، جو اپنے منعم حقیقی کی شکر گزاری کے لیے انسان کے اندر ابھرتا ہے، قدرتی رد عمل یہ ہے کہ وہ اسی کی بندگی کرے اور اور اسی سے مدد مانگے، جو ذات اس فیاضی اور اس اہتمام کے ساتھ پرورش کر رہی ہے، جس کی یہ پروردگاری نہ اس کی طرف سے کسی غرض پر مبنی ہے اور نہ ہماری طرف سے کسی استحقاق پر بلکہ تمام تر اس کی رحمانیت اور رحیمیت کا فیضان عام ہے، پھر جس کی ربوبیت اور رحمانیت صرف اسی حیات چند روزہ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس زندگی کے بعد بھی اپنے نیک بندوں کے لیے اس نے ابدی زندگی کی مسرتیں محفوظ کر رکھی ہیں، اس کے سوا کون ہے جو انسان کی حقیقی شکرگزاری کا مستحق ہوسکے۔:: اور اگر وہی ہمارے حقیقی شکر کا سزاوار ہے تو پھر اس کے سوا کون ہے جو اس بات کا حق دار ہوسکتا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں اور اس سے مدد مانگیں ؟ اس طرح شکر کا جذبہ گویا دھکیل کر بندے کو اس کے منعم حقیقی کے دروازے پر ڈال دیتا ہے کہ وہ اسی کی بندگی کرے اور اسی سے طالب مدد ہو۔ اس حقیقت کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی تعبیر کرسکتے ہیں کہ درحقیقت شکر کے جذبہ سے بندہ کے اندر خدا کی عبادت کا داعیہ ابھرتا ہے اور پھر اسی جذبہ اور اسی کے قدرتی رد عمل سے دین کی داغ بیل پڑتی ہے۔ اس کائنات میں اور خود اپنے وجود کے اندر خدا کی ربوبیت اور اس کی رحمت کے بیشمار آثار دیکھ کر انسان کے اندر اپنے منعم حقیقی کے لیے شکر کا جذبہ اور اس جذبہ کی تحریک سے انسان کے اندر اس کی عبادت کرنے کا ولولہ پیدا ہونا ایک ایسی بات ہے جو ہر پہلو سے بالکل ایک فطری اور بدیہی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ کسی سلیم الفطرت انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس حقیقت کا انکار کرسکے۔ لیکن مذہب دشمنی کے اندھے جوش میں فلسفہ جدید کے مدعیوں نے دین کے آغاز سے متعلق اس سے بالکل مختلف نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کے اندر سب سے قدیم اور ابتدائی جذبہ خوف کا جذبہ ہے۔ یہ جذبہ ان ہولناک اور خوفناک حوادث کے مشاہدہ سے پیدا ہوا جو اس دنیا میں طوفانوں، زلزلوں اور وباؤں کی صورت میں آئے دن پیش آتے رہتے تھے۔ اس خوف کے جذبہ نے انسان کو ان ان دیکھی طاقتوں کی پرستش پر مجبور کیا جن کو اس نے ان حوادث کا پیدا کرنے والا خیال کیا۔ اور اس طرح انسان نے شرک سے دین کا آغاز کیا۔ ہم اس غلط نظریہ کی تردید اپنی ایک دوسری کتاب میں پوری تفصیل کے ساتھ کرچکے ہیں۔:: (ملاحظہ ہو ہماری کتاب | حقیقت شرک و توحید | حصہ دوم) یہاں ہم صرف اس بات پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ مذہب کے آغاز سے متعلق قرآن کی یہ تقریر زیادہ دل نشین اور عقل و فطرت کے مطابق ہے یا فلسفہ جدید کا یہ نظریہ زیادہ قرین عقل و فطرت ہے ؟ اس دنیا کے عام واقعات زلزلے، طوفان اور سیلاب ہی ہیں یا اس میں بہاریں بھی آتی ہیں، چاندنی بھی پھیلتی ہے، بارشیں بھی ہوتی ہیں، تارے بھی چھٹکتے ہیں، پھول بھی کھلتے ہیں اور فصلیں بھی پکتی ہیں۔ ہمارے عام مشاہدے میں زیادہ تر ربوبیت کی یہ برکتیں اور رحمت کی یہ شانیں آتی رہتی ہیں یا صرف زلزلوں اور طوفانوں کی ہولناکیاں ہی آتی ہیں ؟ اس کائنات اور خود اپنی فطرت کے عجائب پر نگہ ڈالنے کے بعد انسان پر ان دیکھی طاقتوں کا ہول طاری ہوتا ہے یا ایک رحمان و رحیم اور منع و دیان خدا کے احسانات کے احساس سے دل کا ریشہ ریشہ لبریز ہوجاتا ہے ؟ جو شخص بھی ان سوالوں پر ضد اور ہٹ دھرمی سے پاک ہو کر غور کرے گا اور بےکم وکاست اپنے سچے تاثر کا اظہار کرے گا وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ انسانی عقل اور انسانی فطرت کے بہاؤ کا اصلی رخ وہی ہے جس کا پتہ قران مجید دے رہا ہے، نہ کہ وہ جس کی طرف فلسفہ جدید لے جا رہا ہے۔ یہ نظریہ بھی بدیہی طور پر غلط معلوم ہوتا ہے کہ خوف کا جذبہ تمام دوسرے جذبات سے مقدم ہے۔ خوف کا تجزیہ کیجیے تو صاف نظر آئے گا کہ خوف نام ہے اس چیز کا کہ آپ کو کسی ایسی چیز کے چھن جانے یا اس سے محروم ہوجانے کا اندیشہ یا خطرہ پیدا ہوگیا ہے جو آپ کو حاصل بھی ہے اور جو عزیز بھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر خوف سے پہلے کسی نعمت کا شعور لازمی چیز ہے اور جب نعمت کا شعور پایا گیا تو ایک منعم کا شعور بھی لازمی ہوا اور پھر اس کی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہونا بھی ناگزیر ہوا۔ انسان کے مشاہدہ کائنات اور مشاہدہ انفس کی فطری راہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ نعمتوں اور رحمتوں کے مشاہدہ سے اس پر ایک منعم حقیقی کی شکر گزاری کا جذبہ اور احساس طاری ہوا اور پھر اس جذبہ کی تحریک سے وہ اس کی بندگی کی طرف مائل ہوا۔ رہا یہ سوال کہ اس صحیح شاہراہ پر ایک مرتبہ پڑجانے کے بعد وہ دوسری غلط راہوں کی طرف کسی طرح مڑ گیا تو اس کا سبب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس کی فطرت میں کوئی خرابی موجود تھی جو اس گمراہی کا سبب بنی، بلکہ اس میں یا تو اختیار و ارادہ کے سوء استعمال کو دخل ہے یا عقل کی کج روی اور ہوا پرستی کو۔ اس مسئلہ پر بھی مفصل بحث ہم دوسری جگہ کرچکے ہیں۔ اقرارِ بندگی اور اظہارِ اعتما و توکل کے اس مقام پر پہنچ جانے کے بعد | اھدنا الصراط المستقیم | کی دعا ہمارے سامنے آتی ہے اور اسی دعا پر جو اس تمام تمہید کے بعد اصلی حرف مدعا کی حیثیت رکھتی ہے، یہ سورة ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد مغضوبوں اور گمراہوں کی روش سے اظہار بیزاری کا جو مضمون ہے وہ منفی پہلو سے اس دعا کی توضیح مزید ہے۔ (3) ۔ رسالت کی ضرورت پر ایک دلیل :۔ اوپر کی ساری تمہید کا اقرار و اعتراف کی شکل میں نمایاں ہونا اور | اھدنا الصراط المستقیم | کا دعا کی شکل میں سامنے آنا ایک خاص حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے۔ وہ یہ کہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی رحمت و ربوبیت کی نشانیوں کا تعلق ہے، جہاں تک ان نشانیوں کے مشاہدہ سے شکر کے جذبہ کے ابھرنے کا تعلق ہے اور پھر اس جذبہ شکر کی تحریک سے جہاں تک اسی منعم حقیقی کی بندگی اور اسی سے طلب اعانت کے ارادہ کا تعلق ہے، یہ باتیں ایسی کھلی ہوئی ہیں کہ ان کو ہر انسان محسوس کرسکتا ہے بشرطیکہ اس کے دل پر پردہ نہ پڑا ہوا ہو۔ اگر انسان اپنی عقل اور اپنی فطرت کو ان کی اپنی روش پر کام کرنے دے، غیر فطری اڑنگے ان کی راہ میں نہ ڈالے تو وہ ان باتوں میں سے کسی بات کے اقرار و اعتراف میں بھی بخل نہیں کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک روز جزا کی آمد میں بھی اس کو شبہ نہیں ہوگا۔ البتہ اگر وہ رکے گا تو اس مقام پر آ کر رکے گا کہ جس خدا کی وہ بندگی کرنا چاہتا ہے اور اپنی ہر مشکل میں جس کی مدد پر اس نے بھروسہ کیا ہے اس تک پہنچنے کا، اس کی عبادت کرنے کا، اس کی پسند اور ناپسند معلوم کرنے کا اور زندگی کی ہر مشکل میں اس سے مدد مانگنے کا صحیح طریقہ اور سیدھا راستہ کیا ہے ؟ اسی صحیح راستہ کو معلوم کرنے کے لیے بندہ اللہ تعالیٰ سے | اھدنا الصراط المستقیم | کی دعا کرتا ہے۔ اس بات کو صریح دعا کے اسلوب میں کہنے کے معنی یہ ہیں کہ یہاں انسان کی اپنی عقل اور سمجھ بالکل عاجز ہے۔ صرف خدا ہی ہے جو بتا سکتا ہے کہ صراط مستقیم کیا ہے اور وہی ہے جو اس صراط مستقیم کو اختیار کرلینے کے بعد اس پر جمے رہنے کی توفیق بخش سکتا ہے۔ یہیں سے انسانی فطرت کے اندر وہ خلا نمایاں ہوتا ہے جس کے سبب سے وہ نبوت اور رسالت کا محتاج ہوا ہے۔ انسان اگر کج فہمی سے کام نہ لے تو آفاق اور انفس کی نشانیوں سے وہ یہ تو معلوم کرسکتا ہے کہ ایک خدا ہے، وہ پرورش کرنے والا اور مہربان ہے اور وہ جزا اور سزا دینے والا بھی ہے، لیکن یہ معلوم کرنا اس کے بس میں نہیں ہے کہ اس خدا کی بندگی اور اطاعت کا طریقہ کیا ہے۔ یہی طریقہ بتانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا ہے۔ (4) ۔ سورة پر دعا کے پہلو سے ایک نظر :۔ دعا کے پہلو سے اس سورة کی جو اہمیت ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے تنہا یہی بات کافی ہے کہ یہ سورة ہماری سب سے بڑی عبادت۔ نماز۔ کی خاص سورة ہے۔ صحیحین کی مشہور روایت ہے کہ | لاصلوۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب | اس شٰخص کی نماز نہیں ہے جس نے سورة فاتحہ نہیں پڑھی۔ پھر اپنی تاثیر کے لحاظ سے اس کا جو درجہ ہے اس کا اندازہ اس حدیث قدسی سے ہوتا ہے جو مسلم میں موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندہ جب پورے شعور اور اخلاص کے ساتھ نماز میں اس سورة کی تلاوت کرتا ہے تو اس کا ایک ایک لفظ پڑھنے کے ساتھ ہی خدا کے ہاں شرف قبولیت پاتا ہے۔ حدیث ملاحظہ ہو :۔:: | عن ابی ہریرہ عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول اللہ تعالیٰ قسمت الصلوۃ بینی وبین عبدی نصفین فنصفہا لی و نصفہا لعبدی ولعبدی ما سال اذا قال العبد الحمد للہ رب العالمین قال اللہ حمدنی عبدی واذا قال الرحمن الرحیم قال اللہ اثنی علی عبدی و اذا قال مالک یوم الدین قال مجدنی عبدی واذا قال ایاک نعبد ویاک نستعین قال ھذا بینی وبین عبدی ولعبدی ما سال فاذا قال اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین قال ھذا لعبدی ولعبدی ما سال | (ترجمہ):| ابوہریرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرما