اِہۡدِ نَا الصِّرَاط الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵
Guide us to the straight path –
— Saheeh International
ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما
Surat No 1 : سورة الفاتحة – Ayat No 5

اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ Ayat 5 Surat ul Fatiha with urdu translation and Tafseer by dr israr Ahmed .
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ
(اے رب ہمارے !)
ہمیں ہدایت بخش سیدھی راہ کی
— بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ 5 غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ آمین ! اب دیکھئے ‘ یہ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہی کی تشریح ہے جو آخری تین آیتوں میں ہے۔ ہمیں اللہ سے کیا مدد چاہیے ؟ پیسہ چاہیے ؟ دولت چاہیے ؟ نہیں نہیں ! اے اللہ ہمیں یہ نہیں چاہیے۔ پھر کیا چاہیے ؟ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ”ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما“۔ یہ جو زندگی کے مختلف معاملات میں دورا ہے ‘ سہ را ہے اور چورا ہے آجاتے ہیں ‘ وہاں ہم فیصلہ نہیں کرسکتے کہ صحیح کیا ہے ‘ غلط کیا ہے۔ لہٰذا اے اللہ ! ہمیں سیدھے راستہ کی طرف ہدایت بخش۔ ”اِھْدِ“ ہدایت سے فعل امر ہے کہ ہمیں ہدایت دے۔ ہدایت کا ایک درجہ یہ بھی ہے کہ سیدھا راستہ بتادیا جائے۔ ہدایت کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ سیدھا راستہ دکھا دیا جائے ‘ اور ہدایت کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ انگلی پکڑ کر سیدھے راستے پر چلایا جائے ‘ جیسے بچوں کو لے کر آتے ہیں۔ لہٰذا سیدھے راستے کی ہدایت کی دعا میں یہ سارے مفہوم شامل ہوں گے۔ اے اللہ ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے۔ اے اللہ ! اس سیدھے راستے کے لیے ہمارے سینوں کو کھول دے۔ اَللّٰھُمَّ نَوِّرْ قُلُوْبَنَا بالْاِیْمَانِ وَاشْرَحْ صُدُوْرَنَا لِلْاِسْلَامِ ”اے اللہ ! ہمارے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کر دے اور ہمارے سینوں کو اسلام کے لیے کھول دے“۔ ہمیں اس پر انشراح صدر ہوجائے۔ اور پھر یہ کہ ہمیں اس سیدھے راستے کے اوپر چلا۔اب آگے اس صراط مستقیم کی بھی وضاحت ہے ‘ اور یہ وضاحت دو طرح سے ہے۔صراط مستقیم کی وضاحت ایک مثبت انداز میں اور ایک منفی انداز میں کی گئی ہے۔ مثبت انداز یہ ہے کہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ”اے اللہ ! ان لوگوں کے راستہ پر ہمیں چلا جن پر تو نے اپنا انعام نازل فرمایا“۔ یہ مضمون جا کر سورة النساء میں کھلے گا کہ منعم علیہم چار گروہ ہیں : مِنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا ”کہ وہ نبی ‘ صدّ یقین ‘ شہداء اور صالحین ہیں۔ اور بہت ہی خوب ہے ان کی رفاقت“۔ اے اللہ ! ان کے راستہ پر ہمیں چلا۔ یہ تو مثبت بات ہوگئی۔ منفی انداز یہ اختیار فرمایا : غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ”نہ ان پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ہی وہ گمراہ ہوئے“۔جو لوگ صراط مستقیم سے بھٹک گئے وہ دو قسم کے ہیں۔ ان میں فرق یہ ہے کہ جو شرارت نفس کی وجہ سے غلط راستہ پر چلتا ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے ‘ اور جس کی نیت تو غلط نہیں ہوتی ‘ لیکن وہ غلو کر کے جذبات میں آکر کوئی غلط راستہ اختیار کرلیتا ہے تو وہ ضالّّ گمراہ ہے۔ چناچہ ”مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ“ کی سب سے بڑی مثال یہود ہیں کہ اللہ کی کتاب ان کے پاس تھی ‘ شریعت موجود تھی ‘ لیکن شرارت نفس اور تکبر کی وجہ سے وہ غلط راستہ پر چل پڑے۔ جبکہ نصاریٰ ”ضَآلِّیْن“ ہیں ‘ انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں صرف غلو کیا ہے۔جیسے ہمارے یہاں بھی بعض نعت گو اور نعت خواں نبی کریم کی شان بیان کرتے ہیں تو مبالغہ آرائی کرتے ہوئے کبھی انہیں اللہ سے بھی اوپر لے جاتے ہیں۔ یہ غلو ہوتا ہے ‘ لیکن ہوتا ہے نیک نیتی سے ‘ محبت سے۔ چناچہ نصاریٰ نے حب رسول میں غلو سے کام لیتے ہوئے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنا دیا۔ ہمارے شیعہ بھائیوں میں سے بھی بعض لوگ ہیں جو حضرت علی کو خدا ہی بنا بیٹھے ہیں۔ مثلاً ”لیکن نہیں ہے ذات خدا سے جدا علی !“بہرحال یہ غلو ہوتا ہے جو انسان کو گمراہ کردیتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے : قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ المائدۃ : 77 ”اے کتاب والو ! اپنے دین میں ناحق غلو سے کام نہ لو“۔ لیکن نصاریٰ نے اپنے دین میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی محبت میں غلو سے کام لیا تو وہ گمراہ ہوگئے۔ تو اے اللہ ! ان سب کے راستے سے ہمیں بچا کر سیدھے راستے پر چلا ‘ جو صدّ یقین کا ‘ انبیاء کا ‘ شہداء کا اور صالحین کا راستہ ہے۔حدیث قدسی آخر میں وہ حدیث قدسی پیش کر رہا ہوں جس میں سورة الفاتحہ ہی کو الصَّلَاۃ نماز قرار دیا گیا ہے۔ یہ مسلم شریف کی روایت ہے اور حضرت ابوہریرہ اس کے راوی ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ ‘ فَاِذَا قَالَ الْعَبْدُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ قَال اللّٰہُ تَعَالٰی : حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ ‘ وَاِذَا قَالَ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَال اللّٰہُ تَعَالٰی :حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ ‘ وَاِذَا قَالَ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَال اللّٰہُ تَعَالٰی : اَثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِیْ ‘ وَاِذَا قَالَ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ قَالَ مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ وَقَالَ مَرَّۃً : فَوَّضَ اِلَیَّ عَبْدِیْ فَاِذَا قَالَ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ قَالَ ہٰذَا بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ ‘ فَاِذَا قَالَ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ قَالَ ہٰذَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ 7”میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو برابر حصوں میں تقسیم کردیا ہے اس کا نصف حصہ میرے لیے اور نصف حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ عطا کیا گیا جو اس نے طلب کیا۔ جب بندہ کہتا ہے : ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی میرا شکر ادا کیا۔ جب بندہ کہتا ہے : ”الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثنا کی۔ جب بندہ کہتا ہے : ”مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ تو اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی اور بڑائی بیان کی اور ایک مرتبہ آپ نے یہ بھی فرمایا : ”میرے بندے نے اپنے آپ کو میرے سپرد کردیا گویا یہ پہلا حصہ کل کا کل اللہ کے لیے ہے۔ پھر جب بندہ کہتا ہے : ”اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حصہ میرے اور میرے بندے کے مابین مشترک ہے اور میں نے اپنے بندے کو بخشا جو اس نے مانگا۔ گویا یہ حصہ ایک قول وقرار اور عہد و میثاق ہے۔اسے میں نے کہا تھا کہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان hand shake ہے۔ پھر جب بندہ کہتا ہے : ”اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ“ تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ حصہ کل کا کل میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مجھ سے طلب کیا وہ میں نے اسے بخشا“۔اس حدیث کی رو سے سورة الفاتحہ کے تین حصے بن جائیں گے۔ پہلا حصہ کلیتاً اللہ کے لیے ہے اور آخری حصہ کلیتاً بندے کے لیے ‘ جبکہ درمیانی و مرکزی آیت : ”اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ“ بندے اور اللہ کے مابین قول وقرار ہے۔ گویا اس کا بھی نصفِ اوّل اللہ کے لیے اور نصف ثانی بندے کے لیے ہے۔ اس طرح نصف نصف کی تقسیم بتمام و کمال پوری ہوگئی !ایک بات یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اس حدیث قدسی میں ”قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ“ کے بعد آیت ”بسم اللہ“ کا ذکر نہیں ہے ‘ بلکہ ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ“ سے بات براہ راست آگے بڑھتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس ضمن میں امام ابوحنیفہ رح کا موقف درست ہے کہ آیت بسم اللہ سورة الفاتحہ کا جزو نہیں ہے۔اس سورة مبارکہ کے اختتام پر ”آمین“ کہنامسنون ہے۔ ”آمین“ کے معنی ہیں ”اے اللہ ایسا ہی ہو !“ اس سورة مبارکہ کا اسلوب چونکہ دعائیہ ہے ‘ لہٰذا دعا کے اختتام پر ”آمین“ کہہ کر بندہ گویا پھر بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتا ہے کہ اے پروردگار ! میں نے یہ عرضداشت تیرے حضور پیش کی ہے ‘ تو اسے شرف قبول عطا فرما !بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ Ayat 5 Surat ul Fatiha in Urdu translation and Tafseer by Moududi Tafheem ul Quran
ٱهدناٱلصرط ٱلمستقيم
ہمیں سیدھا راستہ دکھا
تفہیم القرآن (مولانا مودودی)
سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :8 یعنی زندگی کے ہر شعبہ میں خیال اور عمل اور برتاؤ کا وہ طریقہ ہمیں بتا جو بالکل صحیح ہو ، جس میں غلط بینی اور غلط کاری اور بدانجامی کا خطرہ نہ ہو ، جس پر چل کہ ہم سچی فلاح و سعادت حاصل کر سکیں ——– یہ ہے وہ درخواست جو قرآن کا مطالعہ شروع کرتے ہوئے بندہ اپنے خدا کے حضور پیش کرتا ہے ۔ اس کی گزارش یہ ہے کہ آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اور ہمیں بتائیں کہ قیاسی فلسفوں کی اس بھول بھلیاں میں حقیقتِ نفس الامری کیا ہے ، اخلاق کے ان مختلف نظریات میں صحیح نظام اخلاق کونسا ہے ، زندگی کی ان بے شمار پگڈنڈیوں کے درمیان فکر و عمل کی سیدھی اور صاف شاہراہ کونسی ہے ۔
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ Surat ul Fatiha Tafseer ibn kaseer in urdu
تفسیر ابن کثیر
Surat No. 1 Ayat NO. 5
حصول مقصد کا بہترین طریقہ: ٭٭ (آیت:۵) جمہور نے صِرَاطَ پڑھا ہے۔ بعض نے سِرَاطَ کہا ہے اور زے کی بھی ایک قراۃ ہے۔ فرا کہتے ہیں‘ بنی عذرہ اور بنی کلب کی قراۃ یہی ہے چونکہ پہلے ثنا و صفت بیان کی تو اب مناسب تھا کہ اپنی حاجت طلب کرے۔ جیسے کہ پہلے حدیث میں گذر چکا ہے کہ اس کا آدھا حصہ میرے لئے ہے اور آدھا میرے بندے کے لئے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ طلب کرے۔ خیال کیجئے کہ اس میں کس قدر لطافت اور عمدگی ہے کہ پہلے پروردگار عالم کی تعریف و توصیف کی۔ پھر اپنی اور اپنے بھائیوں کی حاجت طلب کی۔ یہ وہ لطیف انداز ہے جو مقصود کو حاصل کرنے اور مراد کو پا لینے کے لئے تیر بہدف ہے۔ اس کامل طریقہ کو پسند فرما کر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی ہدایت کی۔کبھی سوال اس طرح ہوتا ہے کہ سائل اپنی حالت اور حاجت کو ظاہر کر دیتا ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا رَبّی اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ‚ پروردگار جو بھلائیاں تو میری طرف نازل فرمائے‘ میں اس کا محتاج ہوں۔ حضرت یونس علیہ السلام نے بھی اپنی دعا میں کہا لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘ تو پاک ہے۔ میں ظالموں میں سے ہوں۔ کبھی سوال اس طرح بھی ہوتا ہے کہ سائل صرف تعریف اور بزرگی بیان کر کے چپ ہو جاتا ہے۔ جیسے کسی شاعر کا قول ہے کہ مجھے اپنی حاجت کے بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ تیری مہربانیوں بھری بخشش مجھے کافی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ داد و دہش تیری پاک عادتوں میں داخل ہے لیکن تیری پاکیزگی بیان کر دینا‘ تیری حمد و ثنا کرنا ہی مجھے اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے کافی ہے۔ ہدایت کے معنی یہاں پر ارشاد اور توفیق کے ہیں۔ کبھی تو ہدایت بنفسہ متعدی ہوتی ہے جیسے یہاں ہے۔ تو معنی اَلْھِمْنَا وَفِّقْنَا اَرْزُقْنَا اور اَعْطِنَا یعنی ہمیں عطا فرمائے ہوں گے۔ اور جگہ ہے وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ„یعنی ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے‘ بھلائی اور برائی دونوں کے اور کبھی ہدایت’ الی‘‘ کے ساتھ متعدی ہوتی ہے جیسے فرمایا اِجْتَبٰہُ وَھَدٰہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ…اورفرمایا فَاھْدُوْھُمْ اِلٰی صِرَاطِ الْجَحِیْمِ یہاں’ہدایت‘‘ارشاد اور دلالت کے معنی میں ہے۔ اسی طرح فرمان ہے وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْ الخ یعنی تو البتہ سیدھی راہ دکھاتا ہے اور کبھی ہدایت لام کے ساتھ متعدی ہوتی ہے جیسے جنتیوں کا قول قرآن کریم میں ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِھٰذَاˆ یعنی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی یعنی توفیق دی اور ہدایت والا بنایا۔ صراط مستقیم کے معنی سنئے۔ امام ابو جعفر ابن جریرؒ فرماتے ہیں‘ مراد اس سے واضح اور صاف راستہ ہے جو کہیں سے ٹیڑھا نہ ہو۔ عرب کی لغت میں اور شاعروں کے شعر میں یہ معنی صاف طور پر پائے جاتے ہیں اور اس پر بے شمار شواہد موجود ہیں۔ صراط کا استعمال بطور استعارہ کے قول اور فعل پر بھی آتا ہے اور پھر اس کا وصف استقامت اور ٹیڑھ پن کے ساتھ بھی آتا ہے۔ سلف اور متاخرین مفسرین سے اس کی بہت سی تفسیریں منقول ہیں اور ان سب کا خلاصہ ایک ہی ہے اور وہ اللہ اور رسولؐ کی اتباع اور تابعداری ہے۔ صراط مستقیم کیا ہے ؟ ٭٭ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ صراط مستقیم کتاب اللہ ہے۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریرؒ نے بھی روایت کی ہے۔ فضائل قرآن کے بارے میں پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ‘حکمتوں والا ذکر اور سیدھی راہ یعنی صراط مستقیم یہی اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے۔‚ مسند احمد‘ ترمذی۔ حضرت علیؓ کا قول بھی یہی ہے اور مرفوع حدیث کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ مشابہ ہے۔ واللہ اعلم۔ حضرت عبد اللہ سے بھی یہی روایت ہے۔ ابن عباسؓ کا قول ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہئے یعنی ہمیں ہدایت والے راستہ کا الہام کر اور اس دین قیم کی سمجھ دے جس میں کوئی کجی نہیں۔ آپ سے یہ قول بھی مروی ہے کہ اس سے مراد اسلام ہے۔ ابن عباسؓ‘ ابن مسعودؓ اور بہت سے صحابہؓ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے جو ہر اس چیز سے جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے زیادہ وسعت والا ہے۔ ابن حنفیہ فرماتے ہیں‘ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کے سوا اور دین مقبول نہیں۔ عبد الرحمن بن زید بن اسلم ؒکا قول ہے کہ صراط مستقیم اسلام ہے۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی کہ صراط مستقیم کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں‘ ان میں کئی ایک کھلے ہوئے دروازے اور دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں۔ صراط مستقیم کے دروازے پر ایک پکارنے والا مقرر ہے جو کہتا ہے کہ اے لوگو تم سب کے سب اسی سیدھی راہ پر چلے جائو۔ ٹیڑھی ترچھی ادھر ادھر کی راہوں کو نہ دیکھو نہ ان پر جائو۔ اور اس راستے سے گزرنے والا جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی کو کھولنا چاہتا ہے تو ایک پکارنے والا کہتا ہے‘ خبردار اسے نہ کھولنا۔ اگر کھولا تو اس راہ لگ جائو گے اور صراط مستقیم سے ہٹ جائو گے۔ پس صراط مستقیم تو اسلام ہے اور دیواریں اللہ کی حدیں ہیں اور کھلے ہوئے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور دروازے پر پکارنے والا قرآن کریم ہے اور راستے کے اوپر سے پکارنے والا زندہ ضمیر ہے جو ہر ایماندار کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور واعظ کے ہوتا ہے۔ یہ حدیث ابن ابی حاتم‘ ابن جریر‘ ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور اس کی اسناد حسن صحیح ہیں۔ واللہ اعلم۔ مجاہدؒ فرماتے ہیں‘ اس سے مراد حق ہے۔ ان کا قول سب سے زیادہ مقبول ہے اور مذکورہ اقوال کا کوئی مخالف نہیں۔ ابو العالیہؒ فرماتے ہیں‘ اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے بعد کے آپ کے دونوں خلیفہ ؓہیں۔ ابو العالیہؒ اس قول کی تصدیق اور تحسین کرتے ہیں۔ دراصل یہ سب اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے سے ملے جلے ہیں- نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے دونوں خلفاء صدیقؓ و فاروقؓ کا تابعدار حق کا تابع ہے اور حق کا تابع اسلام کا تابع ہے اور اسلام کا تابع قرآن کا مطبع ہے اور قرآن اللہ کی کتاب اس کی طرف کی مضبوط رسی اور اس کی سیدھی راہ ہے- لہذا صراط مستقیم کی تفسیر میں یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں- فالحمد للہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ صراط مستقیم وہ ہے جس پر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا۔ امام ابو جعفر بن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ ہے کہ میرے نزدیک اس آیت کی تفسیر میں سب سے اولیٰ یہ ہے کہ ہم کو توفیق دی جائے اس کی جو اللہ کی مرضی کی ہو اور جس پر چلنے کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں سے راضی ہوا ہو اور ان پر انعام کیا ہو۔ صراط مستقیم یہی ہے اس لئے کہ جس شخص کو اس کی توفیق مل جائے جس کی توفیق اللہ کے نیک بندوں کو تھی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا تھا‘ جو نبی‘ صدیق ‘ شہید اور صالح لوگ تھے‘ انہوں نے اسلام کی اور رسولوں کی تصدیق کی‘ کتاب اللہ کو مضبوط تھام رکھا‘ اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائے‘ اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے چاروں خلیفوں اور تمام نیک بندوں کی راہ کی توفیق مل جائے گی تو یہی صراط مستقیم ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مومن کو تو اللہ کی طرف سے ہدایت حاصل ہو چکی ہے‘ پھر نماز اور غیر نماز میں ہدایت مانگنے کی کیا ضرورت؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مراد اس سے ہدایت پر ثابت قدمی اور رسوخ اور بینائی اور ہمیشہ کی طلب ہے۔ اس لئے کہ بندہ ہر ساعت اور ہر حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا محتاج ہے۔ وہ خود اپنی جان کے نفع نقصان کا مالک نہیں بلکہ دن رات اپنے اللہ کا محتاج ہے۔ اسی لئے اللہ نے اسے سکھایا کہ ہر وقت وہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتا رہے اور ثابت قدمی اور توفیق چاہتا رہے۔ بھلا اور نیک بخت انسان وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے در کا بھکاری بنا لے۔ وہ اللہ ہر پکارنے والے کی پکار کے قبول کرنے کا کفیل ہے بالخصوص بے قرار محتاج اور اس کے سامنے اپنی حاجت دن رات پیش کرنے والے کی ہر پکار کو قبول کرنے کا وہ ضامن ہے۔ اور جگہ قرآن کریم میں ہے یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ الخ اے ایمان والو! اللہ پر‘ اس کے رسولوں پر اس کی اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول کی طرف نازل فرمائی اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل ہوئیں‘ سب پر ایمان لائو۔ اس آیت میں ایمان والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا اور ہدایت والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا ایسا ہی ہے جیسے یہاں ہدایت والوں کو ہدایت کی طلب کرنے کا حکم دینا۔ مراد دونوں جگہ ثابت قدمی اور استمرار ہے اور ایسے اعمال پر ہمیشگی کرنا جو اس مقصد کے حاصل کرنے میں مدد پہنچائیں۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہو بھی نہیں سکتا کہ یہ حاصل شدہ چیز کا حاصل کرنا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور دیکھئے اللہ رب العزت نے اپنے ایمان دار بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کہیں رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیتْنَاَ وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ الخ‚ یعنی اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما‘ تو بہت بڑا دینے والا اور عطا کرنے والا ہے۔ یہ بھی وارد ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز مغرب کی تیسری رکعت سورۂ فاتحہ کے بعد اس آیت کو پوشیدگی سے پڑھا کرتے تھے پس اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ اور اس سے ہمیں نہ ہٹا۔ انعام یافتہ کون ؟ ٭٭ اس کا بیان پہلے گذر چکا ہے کہ بندے کے اس قول پر خداوند کریم فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے ہے جو کچھ وہ مانگے۔ یہ آیت صراط مستقیم کی تفسیر ہے اور نحویوں کے نزدیک یہ اس سے بدل ہے اور عطف بیان بھی ہو سکتی ہے واللہ اعلم۔ اور جن پر اللہ کا انعام ہوا‘ ان کا بیان سورۂ نساء میں آچکا ہے۔ فرمان ہے وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ الخ یعنی اللہ اور اس رسول کے کہے پر عمل کرنے والے ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ کا انعام ہے۔ جو نبی‘ اور صدیق‘ شہید ‘ صالح لوگ ہیں‘ یہ بہترین ساتھی اور اچھے رفیق ہیں۔ یہ فضل ربانی ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں‘ مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ تو مجھے ان فرشتوں‘ نبیوں‘ صدیقوں‘ شہیدوں‘ اور صالحین کی راہ پر چلا جن پر تونے اپنی اطاعت و عبادت کی وجہ سے انعام نازل فرمایا۔ یہ آیت ٹھیک وََمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ کی طرح ہے۔ ربیع بن انسؒ کہتے ہیں‘ اس سے مراد انبیائؑ ہیں۔ ابن عباسؓ اور مجاہدؒ فرماتے ہیں‘ مومن ہیں۔ وکیع ؒ کہتے ہیں مسلمان۔عبدلرحمن فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ مراد ہیں۔ ابن عباسؓ کا قول زیادہ معقول اور قابل تسلیم ہے۔ واللہ اعلم۔ جمہور کی قرات میں غیررے کی زیر کے ساتھ ہے اور صفت ہے۔ زمحشری کہتے ہیں‘ رے کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور حال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عمر بن خطاب ؓکی قرأت یہی ہے اور ابن کثیرؓ سے بھی یہی روایت کی گئی ہے عَلَیْھِمْ میں جو ضمیر ہے‘ وہ اس کا ذوالحال ہے اور اَنْعَمْتَ عامل ہے۔ معنی یہ ہوئے کہ اللہ جل شانہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘ ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا۔ جو ہدایت اور استقامت والے تھے اور اللہ رسولؐ کے اطاعت گذار‘ اس کے حکموں پر عمل کرنے والے‘ اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک رہنے والے تھے۔
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ Surat ul Fatiha Ayat 5 Tadabbar ul Quran ( Ameen Ahsan Islahi)
اِھدِنَا الصراط المستقیم |
ہمیں سیدھے رستے کی ہدایت بخش
Surat No. 1 Ayat NO. 5
| اِھدِنَا الصراط المستقیم | : اِھدِنَا کا مطلب صرف اسی قدر نہیں ہے کہ ہمیں سیدھا رستہ دکھادے بلکہ اس کا مفہوم اس سے بہت زیادہ ہے۔ اس میں یہ مفہوم بھی ہے کہ اس راستہ کی صحت پر ہمارے دل مطمئن کردے، اس پر چلنے کا ہمارے اندر ذوق و شوق پیدا کردے، اس کی مشکلیں ہمارے لیے آسان کردے اور اس پر چلا دینے کے بعد دوسری پگڈنڈیوں سے محفوظ رکھ۔ یہ سارا مضمون یہاں صلہ کو حذف کردینے سے پیدا ہوتا ہے۔ | الصراط المستقیم | پر الف لام عہد کا ہے۔ اس سے مراد وہ سیدھا راستہ ہے جو بندوں کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے کھولا ہے، جو دین اور دنیا دونوں کی فلاح و کامیابی کا ضامن ہے، جس پر چلنے کی دعوت نبیوں اور رسولوں نے دی ہے، جس پر ہمیشہ خدا کے نیک بندے چلے ہیں، جو قریب تر اور سہل تر ہے، جس کے ادھرادھر سے گمراہوں اور گمراہ کرنے والوں نے بہت سی کج پیچ کی راہیں نکال لی ہیں، لیکن وہ بجائے خود قائم ہے اور خدا تک پہنچنے والے ہمیشہ اسی پر چل کر خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔ اسی سیدھے رستے کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ اس طرح سمجھایا کہ زمین پر ایک سیدھا خط کھینچا، پھر اس کے داہنے بائیں آڑے ترچھے خطوط کھینچ دیے، پھر فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا رستہ ہے اور یہ آڑے ترچھے خطوط پگڈنڈیاں ہیں اور ان میں سے ہر پگڈنڈی کی طرف کوئی نہ کوئی شیطان بلا رہا ہے۔
ٱهدناٱلصرط ٱلمستقيم Fee Zilal il Quran Tafsir in Urdu
ہمیں سیدھا راستہ دکھا
Surat No. 1 Ayat NO. 5
Surat No. 1 Ayat NO. 6
ہمیں سیدھا راستہ دکھا ۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا ۔ یعنی ہمیں سیدھے اور منزل مقصود تک پہنچانے والے راستے کو سمجھنے کی توفیق دے۔ اور اس کو سمجھنے کے بعد اس پر چلنے کی استقامت دے ۔ کیونکہ معرفت حق اور پھر اس پر استقامت دراصل اللہ کی رحمت شفقت اور رہنمائی کا ثمرہ ہوتی ہے اور اسی بارے میں اللہ کی طرف رجوع کرنا دراصل عقیدہ توحید کا ثمرہ ہے۔ لہٰذا ایک مومن جن معاملات میں اپنے رب سے مدد اور نصرت طلب کرتا ہے ان میں سے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق کی دعا ایک نہایت ہی اہم اور عظیم مطلوب ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا وعقبیٰ کی سعادت اس پر موقوف ہے کہ انسان جادہ مستقیم کی طرف راہنمائی پائے ۔ اور جادہ مستقیم تک رسائی دراصل اس الٰہی ناموس تک رسائی ہوتی ہے جو اس پوری کائنات کی حرکت اور اس کے اندر اس چھوٹے سے انسان کی حرکت کے درمیان توازن وتناسق پیدا کررہا ہے اور ان دونوں کو اللہ رب العالمین کی طرف متوجہ کررہا ہے۔ اس کے بعد باری تعالیٰ اس راستے کی حقیقت کو بیان فرماتے ہیں وہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے انعام فرمایا ، جو معتوب نہیں ہوئے اور جو بھٹکے ہوئے نہیں۔ یعنی ان لوگوں کا راستہ جن کی قسمت میں اللہ کا انعام لکھا ہوا ہے اور ان لوگوں کا راستہ نہیں جنہوں نے حق کو جانا اور پھر اس سے روگردانی اختیار کی ۔ یا جو سرے سے راہ حق کی معرفت ہی سے محروم رکھے گئے ۔ اور ہدایت ہی نہ پاسکے ۔ بلکہ ان لوگوں کی راہ سعادت مند اور واصلین حق ہیں ۔ غرض یہ ایک مختصر اور بکثرت نماز میں دہرائے جانے والی سورت ہے ، جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور مختصر ہونے کے باوجود اسلامی نظریہ حیات کے نہایت ہی اہم اور اصولی عقائد پر مشتمل ہے ۔ نیز اس میں وہ شعوری ہدایات دی گئی ہیں جن کے سرچشمے اسلامی تصور حیات سے پھوٹتے ہیں ۔